اسلام آباد میں22اور23مارچ 2022ء کو اوآئی سی کے وزرائے خارجہ کا38واں اجلاس منعقد ہورہا ہے ۔تنظیم تعاون اسلامی کاقیام 21اگست 1969ء کو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میںعمل میں آیا۔لیکن امت مسلمہ عملی طورپربیت المقدس کوپنجہ یہودسے چھینے میں ناکام رہی ۔ او آئی سی میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی کی ذمہ داریوں میں دنیا بھر کے 1.5ارب مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ شامل تھا۔ماضی میں بھی بیت المقدس کی حرمت کو نقصان پہنچانے اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کے ردعمل میں مسلم ممالک کے سربراہی اجلاس بلائے گئے اور ان کے نتیجے میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے نام سے بننے والی تنظیم خاصی متحرک نظر آنے لگی۔ 1974 میں اس تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کا جذبہ عروج پر نظر آیا اور مسلم امہ کی آواز اقوام متحدہ سمیت عالمی فورموں اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں سنی جانے لگی۔ اکتوبر1973ء میں عرب اسرائیل کی جنگ میں جب پہلے اسرائیل جنگ ہارگیاتھالیکن امریکہ کی عملی امدادسے جنگ کاپانسہ پلٹ گیااوراسرائیل شام اورمصرکے بہت اندرتک گھستاچلاگیا۔اس موقع پرشاہ فیصل نے ایک غیرت مندانہ فیصلہ لیتے ہوئے امریکہ ،کینیڈا، برطانیہ ،جاپان ،ہالینڈ،پرتگال ،رہوڈشیا اور افریقہ شامل تھے ان تمام ممالک کوتیل کی ترسیل بندکردی جنہوں نے اسرائیل کی اس جنگ میں عملی مددکی تھی ۔ اس اقدام سے امریکہ اوریورپ میں ایک بڑابحران پیداہوا۔ان کی سٹاک ایکسچینج کی مارکٹیں زوال سے دوچارہوئیں۔ایسی صورتحال امریکہ اوریورپ کے لئے ناقابل برداشت تھی اورتین ماہ کے اندراندرہی امریکہ اوریورپ نے گھٹنے ٹیک دئیے ۔صدرنکسن کے قدم ڈگمگائے اس نے اسرائیل کے پوری صورتحال رکھ دی اوراسے نہ صرف جنگ بندی پرمجبورکیا بلکہ وہ تمام علاقے واپس کروائے جو مصر سے شام تک پنجہ یہودمیں آچکے تھے ۔ امریکہ نے یہ اقدام عربوں کے محبت میں نہیں اٹھاتھا بلکہ شاہ فیصل کے تیل کے ترسیلی مقاطعے سے اپنی اوریورپ کی بدترین صورتحال کے پیش نظراٹھایاتھا۔اسے قبل صدرنکسن نے شاہ فیصل کوبہت ڈرایاکہ تمہیں اقتصادی موت مرناہوگا توشاہ فیصل کاجواب تھا کہ ’’ہم عرب ایک اونٹ اورایک خیمے میں زندگی گذارنے کے عادی ہیںاسی پوزیشن پرواپس جائیں گے یہ گوارہ ہوگالیکن یہ ہرگزگوارہ نہیں کہ اپنافیصلہ واپس لیں گے‘‘ مسلم امہ کے سلگتے مسائل کوحل کرانے کے لئے اوآئی سی کے قیام کے باوجود اس کی کوششیں صرف نعروں،مذمتی بیانات اور کمیٹیوں کی تشکیلات تک محدود رہی جبکہ صہیونی ریاست بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے عملی سازشوں میں دن رات سرگرم ہے۔اسرائیلی قبضہ صرف مشرقی بیت المقدس کے علاقوں پر نہیں بلکہ اس میں موجود تاریخی دینی مقامات جن میں مسجد اقصی، قبہ الصخر، کنیسہ القیامہ ساتھ فلسطینوں کی سرزمیں پر دسیوں یہودی کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ مسجد اقصی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور نام نہاد ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے دوران مسجد اقصی کی بنیادیں کمزور کی جا رہی ہیں۔بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں اور نئے گھر بنانے کی اجازت نہیں۔اب فلسطینیوں کے پاس چند ایک پرانی کالونیاں رہ گئی ہیں۔اسرائیلی ریاست کی ناروا پابندیوں کے باعث مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی بھی نماز کے لیے بیت المقدس میں مسجد اقصی میں نہیں جا سکتے ۔ اب اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلاکر اس باب میں پہلا قدم اٹھایا ہے۔لیکن اس ایک روز منعقدہ ہنگامی اجلاس میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایسی اقتصادی پابندیوں اوران کی مصنوعات کابیکاٹ کا اعلان کیاگیااورنہ ہی ان مسلمان ممالک نے جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں منقطع کرنے کی کوئی نویدسنائی۔ عالم اسلام آج تک قبلہ اول پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو چھڑواسکانہ فلسطینی مسلمانوں پر آئے روز ہونے والے مظالم کو رکواسکے ۔سلام ان نہتے فلسطینی کو جو پچھلے ستر سال سے گردنیں کٹوانے کے باجودآج بھی غاصب یہودیوں کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہیں ۔اس قدر مظالم سہنے کے باوجودبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجداقصی کی خاطر ہماری گردنیں کٹ سکتی ہیں،مگر جھک نہیں سکتیں۔کس قدر بے شرمی کی بات ہے کہ کیمونسٹ کیوبا کی ایک خاتون فلسطینی مظلوموں کی خاطریونیسیکو کے ایک اجلاس کے ذریعے دنیا بھر میں اسرائیل کو رسواکرسکتی ہے مگر مال وودلت کی فروانی رکھنے والے مسلمان ملکوں کے حکمران اسرائیل کو مسجد اقصی کی بے حرمتی سے نہیں روک سکتے۔ جب ہم مسئلہ کشمیرکے اب تک حل نہ ہونے کی بات کرتے ہیںتو اس مسئلے کے حل نہ ہونے کے باعث پاکستان کی سلامتی کوخطرات لاحق ہیںجبکہ پاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے اور اس حوالے سے بھارت کومسئلہ کشمیرکے حل اوآئی سی کی بنیادی ریاستی پالیسی کا حصہ ہوناچاہئے۔ اوآئی سی ہمیشہ یہ کہتی چلی آرہی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی تنازع ہے اور اس مسئلے کا حل جنوبی ایشیا میں امن کے خواب کے لیے ناگزیر ہے ۔مسئلہ کشمیر کے حل کی کوشش او آئی سی کا ایک بنیادی فرض ہے اوربھارت سے تجارتی بائیکاٹ کے ذریعے سے مسئلہ کشمیرحل کرانے کے لئے مجبورکرایاجا سکتا۔ اس کے اجلاس اول میںاوآئی سی کے ابتدائی اجلاسوں میںطے پایاتھاکہ امہ کاگم گشتہ وقاراسے واپس دلائیں گے ۔مسلمانوں کی مظلومیت بالخصوص فلسطینی اورکشمیری مسلمانوں کے ساتھ اسرائیل اوربھارت کے روارکھے جانے والے سفاکانہ سلوک کورکوانے کے لئے یہ تنظیم اہم کردار ادا کر سکتی ہے مگر شاہ فیصل جیساکردارنبھانے سے عاجز ہے۔