کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ نہ کوئی خندہ بالب ہے نہ کوئی گریہ کناں تیرا دیوانہ پڑا ہے تری دیوار کے ساتھ ایک شعر اور کہ میرے موضوع سے علاقہ رکھتا ہے ’’چشم نمناک لئے سینہ صدچاک لیے۔دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ اور پھر رنجش کار زیاں دربدری تنہائی اور دنیا بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ۔ میرے سامنے اخبار پر آٹھ کالمی شہ سرخی لگی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو 3سال قید، 5سال کے لئے نااہل قرار، گرفتار، یہ ہوتی ہے پذیرائی لیکن کمال یہ کہ نہ تصویر اور نہ نام لیکن تکتا ہے ہر شخص حسد سے سعد ایسا بدنام ہوا ہے وہ نام جو ہونٹوں پر نہیں آنے دیا جاتا، دلوں پر کندہ ہو جاتا ہے۔ مریم اورنگزیب اور دوسرے کہتے ہیں کہ یہ قاسم کے باپ کے لئے مکافات عمل ہے تو سوال بنتا ہے آپ لوگ ہمارے لئے مکافات عمل ہو کہ آپ کے باعث عوام مہنگائی میں پس گئے اور خوار ہو گئے آپ کے لئے جدوجہد کرنے والے بھی پکار اٹھے: میرے بازو نہیں ہیں میرے لو مرا آخری سہارا گیا آپ نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔ معزز قارئین اس سے پہلے کہ میں کسی اور طرف نکل جائوں ایک نہایت دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو ہمارے استاد ہمیں سنایا کرتے تھے ایک غریب آدمی کو پیر ملا اور اس نے مرید سے کہا کہ خالی کاغذ پر ایک لکھاکرو اور کوئی تمہیں ایک روپیہ دے جایا کرے گا۔ ایسا ہی ہوا معمول بن گیا پھر ایک اور پیر ملا تو حکم ہوا ایک کے ساتھ زیرو لگا لیا کرو اب دس روپے آنے لگے۔ مرید کے اندر لالچ آ گیا کہ اصل پیر تو اب ملا ہے منت سماجت کی اور ایک زیرو کی اور اجازت مل گئی۔سو روپے ملنے لگے۔ جب مرید نے ایک اور زیرو کی ضد کی اور 100 کے ساتھ لگایا تو ایک غائب ہو گیا چار زیرو رہ گئے وہ بھاگم بھاگ پیر صاحب کے پاس پہنچا تو جواب ملا ایک والا پیر ہی ایک لگا یا لگوا سکتا ہے۔ تو صاحبو ایک والا پیر پھر کہاں ملنا تھا۔ تو ایک کو فیس کرنا آسان نہیں ہوتا اس واقعہ کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ ایک کو ہٹایا گیا تو چار نہیں بلکہ سب کے سب زیرو ہو گئے اور اب وہ بے پیریے بھٹک رہے ہیں ان کی نہ کوئی بات سنتا ہے اور نہ کوئی ان پر اعتبار کرتا ہے۔ میرے پڑھنے والے میرے نظریات اور رائے کو اچھی طرح جانتے ہیں مگر میں تو حق رکھتا ہوں، ناانصافی کو کسی صورت سراہا نہیں جا سکتا۔ یہ بھی درست ہے کہ اسے اس طرح سے اقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا جس کا اس نے بھگت لیا اس نے انتظار نہیں کیا اور اب کرے گا۔ دوسروں نے آ کر کیا کیا، بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے اقتدار میں بھی واپس نہیں آ سکا اگر آپ گہرائی میں دیکھیں تو آپ کو تماشہ نظر آئے گا کہ ایک آنکھیں دکھاتا رہا اور دوسرا آنکھیں بچھاتا رہا،یا یوں کہیں کہ ایک گلے پڑنے کو تھا اور دوسرا پائوں پڑنے میں عافیت محسوس کرتا تھا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ سر پھرا شخص پھر بھی اس حد تک نہیں جا سکا جس حد تک یہ چلے گئے۔خدا کے لئے یہ سوچئے کہ عوام کو کیا ملا سارے کیس معاف کروا دیے گئے مجرموں کو تخت پر لا بٹھایا گیا۔ایسے ہی اپنا پرانا شعر یاد آ گیا: اس نے چوروں سے سرعام شراکت کی ہے اس نے قاتل کو بھی مسند پہ بٹھا رکھا ہے ایک اور شعر بھی تھا یقینا آپ کو وہ دور یاد آ جائے گا کہ باردگر آ رہا ہے اگرچہ غیر اعلانیہ ہے: وہ جو کہتا ہے کہ انصاف ملے گا سب کو اس نے منصف کو بھی سولی پہ چڑھا رکھا ہے ویسے اب کے تو سولی پر عوام ہیں جو اپنا کام کرنے آئے تھے کر کے چلے او اب نگران بھی انہی میں سے آئیں گے اور تازہ دم ہو کر آئیں گے لیکن قدرت کو ذھن میں رکھیں وہ جو قلعوں میں محفوظ تھے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے سب کچھ مسمار کردیا تھا۔ان کے دلوں میں عجب رعب بیٹھ گیا تھا۔اللہ کو پسند نہیں۔ظلم کی تعریف تو آپ جانتے ہی ہیں کہ حقدار سے حق چھین لیا جائے یا اسے محروم رکھا جائے یہ جو اس قدر تفاوت ہے ایک دن رنگ لائے گا یہ جو دس دس لاکھ پنشنز لے کر بھی خاموشی سے نہیں بیٹھتے۔یہ جو بڑی بڑی زمینیں لے کر پراپرٹی ڈیلر بن جاتے ہیں انصاف تو پھر اللہ بھی کرتا ہے: سعد لہجے میں جو تلخی ہے کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کسی ایک شخص کو اس حق سے محروم نہیں کر رہے بلکہ کروڑوں لوگوں کو اپنی راہ پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور آپ کوئی پیشوا یا ریفارمر بھی نہیں طاقت سے بھیڑیں تو ہانکی جا سکتی ہیں۔انسان کو اللہ نے شعور دیا ہے اور جب یہ شعور اس کی طاقت کو سمت دیتا ہے تو پھر انقلاب آتا ہے میری باتیں کڑوی ضرور ہیں مگر ان میں سچ ہے کہ ہم ایک لحظہ بنگلہ دیش کو دیکھیں کہ اس نے کس سرعت سے ترقی کی ہے وہ ترقی ہم کیوں نہیں کر سکتے۔ چلیے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ آسودہ رہیں خوشیاں مانیں اور آل اولاد کو باہر پڑھائیں مگر کچھ نہ کچھ عوام کو بھی خیرات کر دیں ان کو رعایا سمجھ کر ہی دال روٹی دے دیں کہ کم از کم آپ جاگیردار کی طرح ہی سوچ لیں آپ تو جلاد بن گئے بجلی گرائی اور کبھی پیٹرول چھڑک دیا لوگ مریں یا جئیں آپ کو سروکار ہی نہیں۔ اب صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخاب کو خواب بنایا جا رہا ہے منظور وسان کاخواب یہ بھی درست ہو گا کہ یہ تو اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ انتخاب ٹالنے کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں یہ جو بجلی اور پٹرول بڑھائی گئی تو یہ اس کا شاخسانہ ہے کہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ آپ عوام کی کھال اتار لیں کچھ نہیں ہو گا انتخاب تب ہو گا جب آپ تیار ہوئے او لوگ بھول چکے ہوںگے۔