سترہ جولائی، جسے بعض لوگ ’خطرہ جولائی‘ کے نام سے بھی یاد کر رہے ہیں، میں بپھرے ہوئے عوامی جذبات اور الیکشن پر اُس کے اثرات کا عالم تو تمام لوگوں نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ ایک دیہاتی ہونے کے ناطے میرا دیہاتوں، شہروں کے بہت سے عام اور خاص لوگوں سے رابطہ رہتا ہے۔ ربع صدی سے کالم نگاری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بہت سی سیاسی ہستیوں کی دریدہ دہنی اور بوسیدہ ذہنی حالت سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ کچھ عرصہ سرکاری ملازمت میں رہنے کی بنا پر سرکاری اداروں کی پست کارکردگی اور اس پر بدمست اور مفاد پرست سیاسی لوگوں کے منفی اثرات کی بدمزگیوں کا بھی کافی حد تک اندازہ ہے۔ ان جملہ امور کی روشنی میں، مَیں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتے۔ عوامی جذبات اور پولنگ میں نوجوان نسل کی بدن بولی کے حساب سے نہ صرف یہ بیس کی بیس سیٹیں تحریک انصاف کی تھیں بلکہ بہت سے حلقوں سے مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہونے کے امکانات روزِ روشن کی طرح عیاں تھے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ الیکشن والے صوبے اور وفاق میں اس پارٹی کی حکومت تھی جو حکومتی مشینری کو بے دریغ استعمال کرنے کے سو، اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کے اِک سو اِک وَل جانتی ہے۔ پھر اس الیکشن کو تو وہ اپنی بقا کی جنگ بھی سمجھ رہے تھے، جو نئی نسل کے با شعور ہونے کے بعد اب زیادہ دیر تک ممکن نظر نہیں آتی۔ اسی طرح پوری اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد بھی اسی پارٹی کو حاصل تھی۔ پھر الیکشن کمیشن کا ’قدموں میں تیرے جینا مرنا ہے‘ والا افسوس ناک رویہ اور آئی جی کی ’’آیا جی‘‘ والی تابع داری، بھلا کس سے پوشیدہ ہے؟ ساری پنجاب پولیس ایک انتقامی جذبے کے ساتھ ایک کانتقامی شخص کے اشارے پر پچیس مئی والی ’’سپورٹ مین شپ‘‘ کے ساتھ میدان میں تھی۔ پھر عمران کے جلسوں والی جگہ کو ایک دن پہلے پانی سے بھر دینا، شیخوپورہ میں کمپنی باغ والی گراؤنڈ کا مَیں چشم دید شاہد ہوں۔ چیچہ وطنی والا چِکڑ کھوبا پوری دنیا نے ملاحظہ کیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے حق میں آواز اٹھانے والے صحافیوں کا طرح طرح سے ناطقہ بند کرنا، سارا ’نمک حلال‘ میڈیا عمران مخالفت میں جھونک دینا۔ مخالفین کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت محال بنا دینا، وزیروں کا اپنے عہدوں سے استعفے دے کر الیکشن پر اثر انداز ہونے کے لیے کمر باندھ لینا، مخالف سیاست دانوں کو گرفتار یا علاقہ بدر کر دینا، الیکشن کے نئے نظام ای وی ایم کو رد کرنا، انتخابی فہرستوں میں ہیرا پھیری، ہر مشکل وقت میں ملکی معیشت کا پہیہ چلائے رکھنے والے غیر ملکیوں کو ووٹ کے حق سے محروم کر دینا، بیلٹ پیپر کے اوپر ملتے جلتے ناموں اور مشابہ انتخابی نشانات سے ابہام پیدا کرنا، عدالت کے نیم دلی ہی سے سہی، منع کرنے کے باوجود الیکشن سے پہلے ترقیاتی سکیموں کا جھانسا دینا وغیرہ جہاں بدبودار نظام کے حامی مشیران کی نفسیاتی کیفیت کا پتہ دیتا ہے، وہاں ذہنی طور شکست کو تسلیم کرنے کا عندیہ بھی ہے۔ الیکشن کے بعد وہ سکیمیں یوں غائب ہو گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اب عالمی منڈی میں پٹرول کتنا سستا ہو چکا ہے لیکن اس کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی کسی کو فکر نہیں۔ ڈالر دوسو تیس اور سونا ڈیڑھ لاکھ تک چھلانگ لگا چکا لیکن ان سیاسی زعیموں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، جو سابقہ حکومت میں پٹرول چار اور ڈالر دو روپے مہنگا ہونے پر لانگ مارچ پہ نکل کھڑے ہوتے تھے۔ بالکل یہی ہوشیاری 2018 کے انتخابات میں بھی کام میں لائی گئی تھی۔ حکومت اس وقت بھی اسی پارٹی کی تھی۔ آخری دنوں میں ان کا حسبِ عادت خزانہ خالی کر دینا، پرانے انداز کا الیکشن بھگتانے کا ہر حربہ استعمال کرنا، مؤثر طاقتوں کا عمران کی خود سری و قومی انا کے پیشِ نظر اسے محدود سیٹوں کے ساتھ کامیاب کرانا تاکہ ملکی مفاد پر اثر انداز ہونے والی طاقتوں کی مرضی کے خلاف کوئی قانون، کوئی ضابطہ پاس نہ کروایا جا سکے۔ کسی بد عمل کو سزا نہ دی جا سکے۔ ہمیں تو ان تجزیہ نگاروں کی محدود سوچ پہ بھی ہنسی آتی ہے، جو فرماتے ہیں کہ عمران خان نے تین سالوں میں کیا کیا ہے؟ جب ہم ان سے جواباً دریافت کرتے ہیں کہ ذرا اِن ’تجربہ‘ کاروں کے تین چار دہائیوں میں تعلیم، صحت، عوامی فلاح، روزگار، زراعت، جنگلات وغیرہ کے سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر کارنامے گنوا دیں۔ ان کی بیرونی جائیدادوں کا کوئی حساب دے دیں ؟ اور پھر یہ کہ اگر عمران نے اپنی ساری جائیداد پاکستان کے نام کر دی ہے تو یہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اثاثے اس مادرِ وطن کے نام کیوں نہیں کرتے؟ یہ بیرونِ ملک بنکوں سے اپنے ڈالر لا کر اس ملک کی معیشت ٹھیک کیوں نہیں کرتے،جس کے اوپر حکومت کرنے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ ان سوالات پر آئیں بائیں شائیں کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا؟ زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ عمران کو مخالف دھڑوں کے ساتھ بیٹھ کر بلکہ ان سے ہاتھ ملا کر ملکی مفاد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر تو ملک کی لوٹی ہوئی دولت سے صرفِ نظر کرنا اور آیندہ کے لیے ان کی لُوٹ مار کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے کا نام ’مل بیٹھنا‘ ہے تو عمران سے تو اس کی توقع ہر گز نہیں رکھی جا سکتی۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میرا خیال ہے کہ اگر ہم اس سرزمین کے ساتھ مخلص اور سنجیدہ ہیں۔ اگر ہم اس کی معیشت، اس کی ترقی کا سفر، اس کی سانسیں بحال رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر تَند مَیل کی طرح بسائی ہوئی سیاسی و فرقہ ورانہ ہمدردیوں سے بالا ہو کر صرف اور صرف ملکی مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔ الزام تراشی جیسی جوابی کارروائیوں سے باز رہنا ہوگا۔ جو سرکاری ملازم اپنے فرائض مناسب طریقے سے انجام نہیں دیتا، جس سیاست دان کے اثاثے اس کی اوقات سے زیادہ ہیں، جس کے مفادات ملک سے باہر ہیں، جو اقتدار کے باوجود ملک میں اپنا کاروبار جاری رکھتا ہے، جو شدید مالی مفاد کے لیے مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، اسے اقتدار تو دور کی بات اس دیار میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ سازشی تحریک عدمِ اعتماد سے لے کے موجودہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی واضح برتری کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے جو غلیظ اور گھناؤنا کھیل رچایا گیا، لوگوں کو دھمکانے اور ضمیروں کی سرِ عام بولیاں لگانے کے لیے جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا گیا، اسے پوری قوم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ نوجوان نسل کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ اب مزید بیوقوف بننے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت کے نام پر اپنی آئندہ نسلوںکو قوم کے سر پر بٹھانے والوں سے متعلق وہ یہ جارحانہ فیصلہ کیے بیٹھے ہیں کہ: جب تاج گرائے جائیں گے جب تخت اچھالے جائیں گے تب راج کرے گی خلقِ خدا؟