جنرل مشرف کا استقبال دل وجان سے ہواتھا۔ امریکی اتحادی بننے پربھی کوئی خاص مزاحمت نہ ہوئی۔جلد ہی مگر اتحادیوں کے مابین اعتماد کا رشتہ کمزور پڑنے لگا تو وطنِ عزیز میں اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت نے ایک وباء کی صورت اختیار کر لی۔اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ طلوع ہوا توبد اعتمادی عروج پر تھی۔ اسی دور میں بھارت کے اندر سرکاری سرپرستی میںفیک نیوز نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مغربی دارلحکومتوں اور خود ملک کے اندر بیٹھے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ایک مربوط نیٹ ورک کے تحت یکسو ہو گئے۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا،جب دیکھو جمہوریت کے فضائل اور شخصی آزادیوں کی اہمیت پر لیکچر جھاڑنے پر اتر آیا۔ الیکٹرانک میڈیا ابلاغیات کے انتہائی موثر پلیٹ فارم کے طورپر ابھرا تو کئی معمولی عقل و شعور کے حامل افرادبھی راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔جن کے ہم آپ نے کبھی نام بھی نہیں سن رکھے تھے، راتوں رات ’ میڈیا سٹارز‘ بن گئے۔ چند برسوں کے اندر برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والوں میں سے کئی تو اب خود کو بادشاہ گر سمجھتے ہیں۔نظریاتی طور پر مفلس، سوال پوچھنے اور مکالمہ کرنے کی تہذیب سے عاری، مگر بلند آہنگ۔ اپنے چہروں پر سویلین بالا دستی اور جمہوریت پسندی کا نقاب اوڑھے خود کو نڈر، بے خوف اور سچ کا ساتھی کہلواتے۔ دن رات جو طاقتور سکیورٹی اسٹیبلشمٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے۔یہی امرعوام کو متحیر کرنے اور نتیجے میں ان کی خیرہ کن شہرت کا سبب بنا ۔ وکلاء کی تحریک ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ نہیں کہ سب محض اپنے ہی گروہی مفادات کے اسیر بن کر جیئے۔ ضرور کچھ ایسے بھی ہیں جودرحقیقت نظریاتی تھے اور ہیں۔خلوص کے ساتھ جو جمہور کے حقِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہی میں سے بیشتر پڑھے لکھے ہیں۔ ادب،تاریخ، فلسفہ اورسیاسیات پر جنہیں عبور حاصل ہے۔قوموں کے عروج وزوال کے اسباب سے جو واقف ہیں۔ فکری خلجان اور دوغلے پن سے پاک ہیں۔ پاکستان کوروزِ اول سے جو ایک فلاحی جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنے میں یکسو رہے۔مارشل لاء ادوار میں جو عقوبت خانوں میں ڈالے گئے۔بھٹو کے عتاب کا مزا جنہوں نے چکھا۔ شریفوں کی آنکھ میں جو کھٹکتے رہے ۔افسوس کہ ان میں سے بھی مگر اکثر ایسے نکلے کہ جنہیں سال 2014ء کے بعد زیرِ عتاب آنے والے حکمران خاندان کے مردو زن میں برِصغیر کے مشاہیر دکھائی دینے لگے۔ ہم جیسوں نے لاکھ لکھا کہ جب بھی ان کو موقع ملا یہ ’ڈیل ‘ کریں گے۔وقت نے ثابت کیا کہ جب بھی انہیں موقع ملا، انہوں نے ڈیل کی ۔ہم جیسے اگر بھانپ گئے تھے توجید تجزیہ کاروںکے کان لندن میںہونے والی ملاقاتوں پرکیونکر کھڑے نہ ہوئے؟لندن میںامریکہ سے حسین حقانی اور پاکستان دشمن افغان کٹھ پتلی حکومت کے نمائندے اکثر نظر آتے ۔اور بھی ہوں گے کہ جن کے مفادات عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ہم آہنگ ہو گئے ہوں۔ ایک چھوٹا ، مگر بے حد موئثرالیٹ گروہ ،برطانوی سامراج کی یادگار ’انگلش سپیکنگ ٹوڈیوں‘ کا ہے۔ انہی کے زیرِ اثر وہ طبقہ ہے جسے میں اور آپ اب ’مغرب زدہ لبرلز‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ مائو نے اپنے ہاں کے بورژوائوں کے بارے میں کہا تھا،’ امراء کی یہ بندروں کی طرح نقالی کرتے ہیں، غریبوں سے ٹوٹ کر نفرت کرتے ہیں‘۔ ہمارے ہاںکے ’جمہوریت پسند لبرلز‘ مغرب سے مرعوب رہتے ہیں۔پاکستان کی مڈل اورلوئر مڈل کلاس سے مگر انہیں گھِن آتی ہے۔ چڑچڑے، متکبراور زعم ِ برتری کے مارے،مذہبی اقدار سے جو بیزار رہتے ہیں۔عورتوں، اقلیتوں کے حقوق، شخصی آزادیوں اور جمہوری اقدار کی مالا دن رات جپتے ہیں، مالی کرپشن اور غربت کو مگربرائی نہیں سمجھتے ۔ الیٹ گروہوں کے مفادات کے نگہبانوں کی اگلی نسلیں مغربی یونیورسٹیوں کو سدھار جاتی ہیں۔ واپسی پر انہیں بھی اپنے ملک اور اس کے شہریوں سمیت یہاں کی ہر شے سے بد بو آنے لگتی ہے۔فکری طور پرخود کو ڈاکٹروں ، انجنیئروں، فوجی افسروں اور مڈل کلاس سے اٹھنے والے دیگر پروفیشنلز سے برتر سمجھتے ہیں۔ہونا تو ایسا ہی چاہیئے۔ مگر کیا کریں کہ حال ہی میںان میں سے اکثر کا فکری افلاس بے نقاب ہو چکا ہے۔اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کی مربوط عالمی سکیم کے اندر،انصاف کے سیکٹر ، میڈیا، حقوق کی تنظیموں اور نام نہاد سول سوسائٹی میں موجود اِن عناصرنے آزمائے ہوئے سیاستدانوں سے امیدیں وابستہ کر لیں اور سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق کے پھریرے لہراتے اُن کے آگے آگے چلنے لگے۔ بدلے ہوئے حالات میں مگریہی سب آج کل دائیں بائیں کی ہانک رہے ہیں۔کچھ پڑے اِن دنوں موسیقی سے دل بہلاتے ہیں۔ کچھ جنسی مسائل پر لکھ رہے ہیں۔ سپین میں پڑا انگریزی نویس جو ہر اتوار خاکی پوشوں کو ہی پاکستان کو درپیش ہر مسئلے کی جڑ قرار دیتا تھا، آجکل ہمیں یورپ کے تفریحی مقامات کی سیر کروا رہا ہے۔ ازکارِ رفتہ سپاہی نے ساری عمر محبت سمیٹی۔کسی جبر کے زیرِاثر نہیں، پاکستانیوں کے دلوں میں محض اپنے سابقہ ادارے کے لئے پائی جانے الفت کی بناء پر۔اسی محبت کا قرض اتارنے کی خاطر چارپانچ برس قبل قلم سنبھالا تھا۔ خدا جانتا ہے اب لکھنا مشقت لگتا ہے۔دل اچاٹ ہو گیا ہے۔ از کارِ رفتہ سپاہی کوئی پیشہ ور صحافی بھی نہیں، کہ جس کی روزی روٹی لکھتے رہنے سے وابستہ ہو۔ توپھر اپنے ہاتھ ہی کیوں نہ کاٹ دیئے جائیں؟ انگلیاں فگارکیوں نہ کر دی جائیں؟ کم ازکم اپنوں سے بے وفائی کا الزام توکبھی سَر نہ آئے گا۔پھرگمان ہوتا ہے کہ اب تک سب نے ا پنا اپنا سبق سیکھ لیا ہوگا۔ضرورسیکھ لیا ہو گا۔ ماسوائے اُن کے کہ نفرت نے جنہیں اندھا کر دیاہے۔ اپنی سیاسی بقاء کو لاحق اندیشوں نے جنہیں گھیر رکھا ہے۔ ’پراجیکٹ2018-‘ کو لے کر جواسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر دہائی دیتے نہیں تھکتے تھے۔ اب اسی اسٹیبلشمنٹ سے چاہتے ہیں کہ وہ ’پراجیکٹ‘ کو مکمل طور پر نیست ونابود کرکے ملک اُن کے حوالے کر دے۔اور خود معاملات سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جائے۔تمام ترطفلانہ آرزوئوں کے باوجودمگرپاکستانی مڈل کلاس اور نئی نسل کے سر پر شروع کیا گیا’پراجیکٹ‘ لاکھ کوششوں کے باوجود اس وقت تک اپنے انجام کو نہیں پہنچے گا کہ جب تک نوچ کھانے والے پرندے سروں پر چکر کاٹتے دکھائی دیتے رہیں گے۔ ستر سے اسی فیصد عوام جن شکلوں سے بیزار ہوں،عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی ہویا مقامی الیٹ طبقات کی پشت پناہی ،محض اُن آزمائے ہوئوں کے بل پر ملک چلانا تادیرممکن نہیں۔کیا یہ سب یہ نہیں جانتے؟ خبریں جو آرہی ہیں، کسی لمبے بندوبست کی ہیں۔ ازکارِ رفتہ سپاہی پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں دیکھتا ہے۔تاہم کچھ دیر کے لئے سر کٹوں کا رقصِ بسمل دیکھنے کو ملے تو کیا برائی ہے۔تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جو اَوروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے،خود بھی اُسی میں گرتا ہے۔ـ آج جوتالیاں پیٹ رہے ہیں ،اندازہ یہی ہے کہ کل وہی سب حبس میں لُو کی دعا مانگیںگے۔ہماری دلچسپی صرف یہ دیکھنے میں ہے کہ کس منہ سے مانگیں گے!