مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا سفر بڑی ہی عقیدت اور بے تابی کا ہے۔ حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ جو بھی روضہ اطہر پر حاضری دے گا تو ہم قیامت کے دن اُس کی شفاعت کریں گے ۔عشاق کا اصل مسکن مدینہ منورہ ہے ۔ عبداللہ خان نے ہمیں میدان عرفات ، جبل رحمت اور دیگر زیارات کرائی جبکہ جبل نورین غار حرا کو دور سے دیکھا چونکہ وقت کم تھا ا س لیے جلدی جلدی زیارات کرتے ہوئے واپس آئے اور پھر مدینہ منورہ کا سفر شروع ہوا ہم ساڑھے چارگھنٹوں بعد مدینہ منورہ پہنچ گئے۔مدینہ منورہ پہنچتے ہی حضور اقدس ؐ کے در اقدس پر حاضری دینے کے لیے بے قراری بڑھ گئی پھر جب غلام اپنے آقا کے حضور پہنچاتو دنیا ہی بدل گئی۔ جب سلام عرض کرنے کے لیے حضور اقدس ؐ کے سامنے انسان پیش ہوتا ہے تو پھر آپ ذرا تصور کریں کے حضور اقدس ؐ اپنی قبر مبارک سے ہم جیسے گناہ گاروں کے سلام وصول کرتے ہیںچونکہ آپ ؐ رحمت ا للعالمین ہیں آپ ﷺ دوجہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے آپ ؐ کے روضہ اطہر پر نیک اور گناہ گار سب بلاتفریق حاضری دیتے ہیں اور آپ ؐ کے سامنے آکر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں ۔ جو اپنائیت اور محبت مدینہ منورہ جا کر ملتی ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں ممکن ہی نہیں آپ جب مدینہ منورہ کے مہمان بنتے ہیں تو آپ کا رزق پہلے سے وہاں موجود ہوتا ہے یہ سب جناب سرور کائنات حضور اقدس ؐ کی ذات اقدس کی وجہ سے ہے اور یہ سب اُنہی کا فیض ہے جو آج بھی مدینہ منورہ میںجاری ہے۔حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ دجال پوری دنیا میں جس جگہ چاہے گا اُس شہر میں داخل ہو جائے گا لیکن دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اِس کو اِن دو مقدس شہروں میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ للہ تعالیٰ کی خصوصی کرم نوازی سے ہم 12 روز حضور اقدس ؐ کی خدمت میں رہے ایک خوب صورت روایت یہ کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہر سوموار اور جمعرات کو روزہ کھولنے کا اہتمام کیا جاتا ہے چونکہ حضور اقدس ؐ کا معمول ہوا کرتا تھا کہ آپ ؐ پیر کے روز اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ یہ پیاری روایت آج تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بدستور قائم ہے مکہ اور مدینہ میں اِن دو دنوں میں حرم پاک میں رمضان المبارک کا سماں پیدا ہو جاتا ہے آپ کو روزہ ہے یا نہیں ہے لیکن سب کے لیے افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے سب کے سامنے بڑے بڑے دستر خوان بچھائے جاتے ہیں اور اُن پر اعلیٰ سے اعلیٰ کھجوریں ، ڈبل روٹی ، دہی اور قہوہ پیش کیا جاتا ہے ہم مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر بابِ بلال کے ساتھ قاری مشتاق احمد صاحب کے دستر خوان پر رہے وہ بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے حضور اقدس ؐ کے گنبد خضرا کے سامنے جنت بقیع کا عظیم قبرستان ہے جہاںپر داخل ہوتے ہی انسان کو بڑی راحت اور سکون ملتا ہے۔ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد جنت بقیع میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے ہم بھی دو مرتبہ جنت بقیع گئے۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے حضرت بی بی فاطمہ الزہرہ ؓ کی قبر مبارک ہے اِس احاطہ میں کائنات کی عظیم ترین ہستیاں محو خواب ہیں پاک بتول بی بی کے ساتھ جناب حضرت امام حسن ؓ آرام فرما رہے ہیں پھر اُن کے ساتھ تین اور قبور ہیں جن میں حضرت زین العابدین ؓ، حضرت امام جعفر ؓ ، امام باقر ؓ آرام فرما رہے ہیں۔عظیم ترین باپ اور عظیم ترین بیٹی بی بی بتولؓ کی قبر اطہر بالکل گنبد خضرا کے سامنے ہے ۔ ترکوں کے زمانہ میں آج سے ایک سو سال قبل اہل بیت کرام کی قبروں پر خوب صورت گنبد تعمیر کیے گئے تھے اور مزار بھی بنائے گئے تھے اِسی طرح جنت بقیع میں واقع حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ اُن کے ساتھ بی بی حلیمہ سعدیہ کی قبر مبارک پر بھی مزار بنائے گئے تھے اور اِسی طرح امام مدینہ حضرت امام مالک بن انس ؓ ،اماںعائشہ صدیقہ ؓ کی قبر ہے۔ سعودی حکومت نے آج تک بڑی سختی کی ہوئی اور اِن پاک لوگوں کی قبروں کے نزدیک بھی نہیں جانے دیا جاتا اِن ہستیوں کے عقیدت مند دور سے کھڑے ہو کر دعائیں مانگتے اور آنسو بہاتے ہیں۔ حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے قیامت کے روز جنت بقیع کے قبرستان سے 70ہزار نورانی چہروں والے اُٹھائے جائیں گے جنت بقیع کی زیارت کے بعد مدینہ منورہ میں جبل اُحد کی زیارت کے لیے گئے۔ حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ اُحد پہاڑ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہم اُحد سے پیار کرتے ہیں اور یہ جنت میں بھی ہمارے ساتھ ہو گا۔ اسلام کی تاریخ میں غزوہ اُحد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اُحد کی لڑائی میں مسلمانوں کو بڑی تکلیف کا سامنا کر نا پڑا تھا اُحد کے بعد غزوہ خندق کی جگہ پر گئے مسجد فتح آج تک موجود ہے جہاں پر حضور اقدس ؐ اور دیگر صحابہ کرام ؓ نے نماز پڑھی تھی جبکہ خندق کے نشانات آج بھی کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں اوپر پہاڑ پر قلعہ کے آثار آج بھی موجود ہیں لیکن اوپر جانا منع ہے۔ غزوہ خندق کے دوران عربوں کا بڑا بہادر عمر و بن عبد جو ہزاروں سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا اُس نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کو پار کر لیا تھا اور مسلمانوں کوللکارا تھا جس پر حضور اقدس ؐ نے حضرت علی ؓ کو عمرو بن عبد کے مقابلے میں بھیجا اور اپنی تلوار ذوالفقار اُن کو عطا کی اور حضرت علی ؓ کی کامیابی کے لیے دعا فرمائی۔ خندق کے بعد مسجد قبا گئے اور دو نفل ادا کی حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ جس نے مسجد قبا میں نفل ادا کیے تو اللہ تعالیٰ اُسے قبول عمرہ کا ثواب عطا فرماتا ہے مدینہ منورہ کے بعد مکہ مکرمہ واپسی ہوئی اور پھر دو دنوں بعد جدہ ائیر پورٹ کے ذریعے اپنے ملک واپس آگئے اور اب پھر مکہ اور مدینہ کی یادیں تڑپا رہی ہیں ۔ (ختم شد )