اہل پاکستان نے کشمیری عوام سے کب اظہار یک جہتی میں کمی آنے دی ہے۔ پاکستانی اور کشمیری یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کشمیری بھی ملت اسلامیہ پاکستان کا حصہ اور اس کا جزو لاینفک ہیں، انہوں نے بھی قیام پاکستان کی جدوجہد میں اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا،جس طرح غیر منقسم ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں نے۔ یہ بات تو طے تھی کہ پاکستان ان ہی علاقوں میں بنے گا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔ یوں مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوں گے لیکن جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی، وہاںکے مسلمان بھی اپنی اسلامی عصبیت کی بنیاد پر قیام پاکستان کی جدوجہد میں پوری طرح شریک رہے اور اس کے لیے عدیم النظر قربانیاںپیش کیں بلکہ آج بھی وہ پاکستان بنانے کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ ریاست جموں وکشمیر تو مسلم اکثریت والا علاقہ تھا،یہاں کے مسلمانوں کو تو سو فیصد یقین تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ بنیںگے،ان کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے تقسیم ہندوستان کے باضابطہ اعلان سے پہلے ہی سری نگر میں منعقدہ اپنے اجلاس میں ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی توثیق کردی تھی اور کشمیر کے ڈوگرہ حکمران پر واضح کردیاتھا کہ کشمیری عوام کو ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوا کوئی فیصلہ منظور نہیں ہوگا۔ لیکن جب بر صغیر کی تقسیم کا اعلان منظر پرآیا اور پاکستان اور بھارت کی شکل میں دو نئے ملک دنیا کے نقشے پر ابھرے تو ڈوگرہ حکمران نے کشمیریوں کی مرضی کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت سے دوستی گانٹھ لی اور ایک جعلی الحاق کے ذریعے بھارت کو کشمیر میں فوجی مداخلت کی دعوت دے دی ۔ کشمیری عوام بھی اس سے جعلسازی پر خاموش نہیں رہے۔ وہ بھارت کی فوجی مداخلت کے خلا ف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے زور بازو سے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کر الیا۔ اگر اس موقع پر انہیںپاکستان کی مکمل فوجی حمایت حاصل ہوتی اور جس طرح بھارت اپنی فوجیں میدان میں لے آیا تھا اس طرح پاکستان کی فوجیں بھی کشمیریوں کی حمایت میں اس کے مقابل آ جاتیں تو شکست بھارت کی مقدر تھی لیکن پاک فوج کے انگریز کمانڈر انچیف نے قائد اعظم ؒکا حکم ماننے سے انکار کر دیا دوسری طرف بھارت نہتے کشمیریوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی اپیل کے ساتھ اقوام متحدہ میں چلا گیا اور اس نے عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کو حق خود ارادایت دینے کا وعدہ کر کے معاملے کو سردخانے میں ڈال دیا۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں جانے کے بعد بھی کتنے مواقع ایسے آئے جب پاکستان جرات سے کام لے کر کشمیریوں کو ان کے حق سے ہم کنار کر سکتاتھا ۔ لیکن پاکستانی قیادت ہمیشہ مصلحتوں اوراندیشوں کا شکار رہی جب کہ بھارت پوری یکسوئی کے ساتھ ریاست پر اپنی فوجی گرفت مضبوط کرتا رہا۔جہاں تک اہل کشمیر کا تعلق ہے، تو انہوں نے بھارت کی غلامی سے نجات کے لیے اپنی جدوجہد میںکبھی کمی نہیںآنے دی، وہ مسلسل پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنے حق کا مطالبہ کرتے رہے۔انہوں نے بار بار اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا،عالمی ضمیر کو آواز دی ، بھارت کو اس کا وعدہ یاد دلایا لیکن جب ساری پرامن کوششیں رائیگاں گئیں تو بالاخر انہیں بھارت کے خلاف علم جہاد بلندکرنا پڑا ۔ پاکستان کے عوام نے ان کی تائید کی ۔ حکومت نے ان کی جدوجہد کو منصفانہ قرا ردیا اور کشمیر کے محاذ پر شجاعت کی نئی داستان رقم کی جانے لگیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے کشمیر کے محاذ پر سب سے پہلے اپنا لہو پیش کیا، اس کے جوان میدان میں نکلے۔ اور انہوں نے بھارتی استعمار کے خلاف شجاعت کی نئی داستانیں رقم کیں ۔ سیاسی محاذ پر بھی جماعت اسلامی اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت کا پرچم اٹھاکر نکلی اور امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے 5 فروری کو کشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کا دن منانے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں کیاگیا۔ حکومت بھی اسی دن کو اپنانے اور اسے قومی سطح پر منانے پر مجبور ہو گئی اور 5 فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دی گئی ۔ اب برس ہا برس گزر گئے۔ یہ دن قومی سطح پر منایا جا تاہے اور کم از کم ایک بات پوری دنیا پرواضح ہو گئی کہ پاکستانی قوم خواہ داخلی سطح پر کتنے ہی اختلافات کا شکار ہو ٗمسئلہ کشمیر پر بند مٹھی کی طرح متحد ٗ متفق اور یک جان ہے وہ کشمیری عوام کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ یہی وہ حمایت ہے جس نے کشمیریوں کو بھی بھارتی استبداد کے مقابلے میں جمائے رکھا ہے ان کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں آئی ۔ اس سال بھی حسب سابق پانچ فروری کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے طول و عرض میںقومی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا دن منایا گیا۔ وزیر اعظم نے مظفر آبادمیں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کنٹرول لائن کے اس پار کشمیری عوام کو یہ پیغام دیا کہ پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ آخری فتح ان ہی کی ہوگی ۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پاکستان کواپنے اندرونی معاملات میں بری طرح پھنسنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ جموں کشمیر ہماری زندگی موت کا مسلہ ہے۔نعرے جتنے بھی بلند آہنگ کیوں نہ ہوں،دعوے کتنے بڑے کیوں نہ ہوں،تقریریں چاہے جتنی بھی جاندار کیوں نہ ہوں،یہ سب آزادی حاصل کرنے کا نعم البدل نہیں ہیں۔انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اب اچھی طرح سمجھ آچکی ہے کہ پاکستان ہر موڑ پر ساتھ کھڑا بھی تھا لیکن عملاً کچھ نہیں کر سکا۔پاکستان کے جھنڈے میں دفن ہونے والے اب بھی بہت ہیں لیکن تابہ کہ؟ ٭٭٭٭٭