بھارت میں الیکشن قریب آتے ہی حکمران جماعت کے رہنماوں کی زبان پاکستان کے خلاف شعلے اگلنے لگی ہے۔تازہ مثال وزیر داخلہ راجناتھ کی درفنطنی ہے کہ بھارت پاکستان کے علاقے میں گھس کر اپنے مطلوبہ افراد کے خلاف کارروائی کرے گا۔ایک خود مختار، ایٹمی قوت اور عالمی برادری میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستان کے متعلق بھارت پہلے بھی ایسی مہم جوئی کرچکا ہے جس کا نتیجہ ابھی نندن کی گرفتاری اور دو طیاروں کی تباہی کی صورت نکلا تھا۔بہر حال پاکستان دشمنی آج بھی بھارتی سیاست میں ترپ کا پتہ سمجھی جا رہی ہے ۔ پاکستان نے ایک حالیہ ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران بھارتی وزیر دفاع کے اشتعال انگیز ریمارکس کی مذمت کی ہے۔پاکستان اقوام متحدہ ، امریکہ اور یورپی یونین کو بھارتی دخل اندازی اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے متعلق متعدد ڈوزئیر پیش کر چکا ہے۔25 جنوری 2024 کو، پاکستان نے ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے، جو پاکستانی سرزمین پر بھارت کے ماورائے عدالت اور بین الاقوامی قتل عام کی مہم کو واضح کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے مزید شہریوں کو ماورائے عدالت سزائے موت دینے کے لیے اپنی تیاری کا دعویٰ پاکستان کے اندر "دہشت گردانہ" کردار ادا کرنے کے مترادف ہے، یہ واضح طور پر جرم کا اعتراف ہے۔ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ بھارت کو اس کے گھناؤنے اور مجرمانہ اقدامات پر جوابدہ ٹھہرائے۔ کسی بھی جارحیت کے خلاف پاکستان کی جوابی صلاحیت کسی شک و شبہ سے بالا ہے، جیسا کہ فروری 2019 میںبھارت کی دراندازی پر اس کے مضبوط ردعمل سے ظاہر ہوا، جس نے بھارت کی فوجی برتری کے کھوکھلے دعووں کو بے نقاب کیا۔ بھارت میں حکمرانی کا نظام عادتاً نفرت انگیز بیان بازی کا سہارا لے کر منفیقوم پرستی کے جذبات کو ہوا دیتا ہے، انتخابی فائدے کے لیے اس طرح کی گفتگو کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے، یہ اندازہ کیئے بنا کہ اس کے اثرات ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگی پر ہیجان کی صورت مرتب ہو سکتے ہیں۔بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ نہ صرف علاقائی امن کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ طویل المدتی مثبت تعلقات کے امکانات کا راستہ بھی روکتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن کے لیے اپنے خلوص کا ثبوت دیا ہے۔ تاہم، ہماری امن کی خواہش کو غلط نہیں سمجھا جانا چاہیے۔بھارت کئی برس سے پاکستان کو سیاسی و سفارت سطح پر تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔یہ نفرت اسے کھیلوں اور ثقافت کے شعبے میں تعاون سے بھی دور کر چکی ہے۔پاکستان کی پچھلی کئی حکومتیں مذاکرات پر آمدگی کا اظہار کرتی رہی ہیں لیکن بھارت بات چیت سے انکاری ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اسے پاکستان کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا ہے ۔وہ ایسا سوچتا ہے تو تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاریخ پاکستان کے پختہ عزم اور اپنے دفاع کی صلاحیت کی گواہی دیتی ہے۔ دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے اپنیعزم اور صلاحیت پر قائم ہے۔یاد رہے کہ اخبار گارڈین کی جانب سے 4 اپریل 2024کو ایک خبر سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ دونوں جانب سے سامنے آنے والے شواہد کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پاکستان میں اْس کے شہریوں کو نشانہ بنانے میں ملوث ہے۔جس کے بعد دی گارڈین کی ہی جانب سے کہا گیا کہ بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارتکی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے، دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے اور اس کی معاشی ترقی کا راستہ کھوٹا کرنا بھارت کی خواہش رہی ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی اس کے منفی عزائم رکنے کا نام نہیں لے رہے، پاکستان میں جمہوری نظام مستحکم نہ ہونے اور دانشمند سیاسی قیادت کی کمی کو ایک جوازقرار دیا جا سکتا ہے لیکن ایک پر امن ملک جس کے آدھے سے زیادہ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے اور جس کی تجارت کو ناکام بنانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے ، اس کے پاس کون سا راستہ چھوڑا گیا ہے ؟بھارت ایک علاقائی قوت کے طور پر اپنی طاقت کا استعمال اپنے ہمسائیوں پر کرے گا تو پورا خطہ بد امنی کا شکار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ایک بھارتی شہری کلبھوشن جادیو کو مارچ 2016 میں پاکستانی حکام نے گرفتار کیا ۔ اس پر جاسوسی اور تخریب کاری کا الزام تھا۔ اس پر بلوچستان میں خفیہ دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کا الزام تھا۔ کلبھوشن کے مطابق وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر تھا جسے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا ۔ پاکستان نے جادیو کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں اس نے اعتراف کیا کہ اسے بھارتکی انٹیلی جنس ایجنسی، ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ نے بلوچستان اور کراچی میں جاسوسی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور انہیںمنظم کرنے کا کام سونپا تھا۔تاہم بھارت نے جواب دیا کہ وہ بحریہ کا سابق فوجی تھا اور اسے پاکستان نے ایران سے اغوا کیا ۔یہبھی کہا کہ قونصل خانے کو بتائے بغیر اسے غلط طریقے سے تین ہفتوں تک حراست میں رکھا تھا۔ بعد ازاں اسے ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ۔جادیو ابھی تک سزا پر عمل درآمد کا منتظر ہے۔ ایسے "ٹھوس شواہد" موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ بھارت بلوچستان کے کچھ علاقوں میں دہشت گرد قوتوں کی مددکرتا ہے۔بھارت انہیں رقوم، ہتھیار اور تربیت فراہم کرتا ہے۔انسداد دہشت گردی کے بہانے بین الاقوامی برادری میں اپنے کچھ حریفوں اور پڑوسیوں کو مسلسل دبانے کے دوران، بھارت نے خفیہ طور پر بلوچستان میں، مقامی علیحدگی پسندوں کو اکسانے کے لیے دہشت گرد قوتوں کی مالی معاونت کی ہے۔دہشت گرد حملوں کا مقصد علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔ بھارتکی پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ممتاز مصنف ایم اکرام ربانی نے اپنی کتاب ’’اے کمپری ہینسیو بک آف پاکستان سٹڈیز‘‘ میں اس وقت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر سبرامنیم کا حوالہ دیا جنہوں نے مارچ 1971 میں ایک سمپوزیم کے دوران کہا تھا کہ ’’بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کا ٹوٹنا ہمارے مفاد میں ہے اور ایسا موقع جو دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔ ‘‘اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ بلوچستان جیسے خطوں میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے علیحدگی پسند گروپوں کی حمایت کرتے ہوئے، بھارت عالمی برادری میں "چوری بند کرو" کے نعرے لگانے والے چور جیسی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔