کارروائی کے دوران مہاراشٹر کے شولا پور میں وجے پور ناکہ کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کیا تھا،جس میں بتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے تو وہاں سے اْردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک ڈاکیومنٹ ملا جس پرایک شعر درج تھا؛ موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستان یار سے اٹھ جائیں کیا غالب کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یوں کیا تھا ’’رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا‘ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘۔ انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعر ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حیدرآبادکے سعیدآباد تھانے کے انسپکٹر پی دیویندر کا حلف نامہ تھا۔ جن کا اصرار ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سیمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔دیویندر کا کہنا تھاکہ سیمی اتنی خطرناک تنظیم ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ جب وکیل دفاع نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی سے ان کی کیا مرادہے تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر کہا کہ،میں اپنے اس بیان پر قائم ہوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دراصل سیمی کے اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔گھاٹ کوپر تھانہ ممبئی کے اس وقت کے تفتیشی افسر ادے سنگھ راٹھورنے اپنے حلف نامے میں لکھا کہ سیمی کے مبینہ کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگاوں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی) واضح طور مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش میں ملوث پائے گئے ہیں۔ انسپکٹر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے جو قابل اعتراض مواد برآمد ہوئے تھے وہ سرورق کے بغیر اردو کا ایک رسالہ ہے۔ یہ رسالہ دہلی کی سرکاری اردو اکادمی کا ‘ماہنامہ امنگ’ تھا۔ جسے اکادمی بچوں کے لیے شائع کرتی ہے۔جب راٹھور سے جرح کی گئی تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس رسالہ میں بچوں کے لیے مضامین اور کہانیاں ہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ ایسے ہی رسائل کے ذریعہ انتہاپسند اپنے خیالات‘ افکار و نظریات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔اسی طرح ایک اور حلف نامے میں کھنڈالہ پولیس ٹریننگ اسکول کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وشنو بابو راو جگ تاپ کہتے ہیں کہ جب وہ شولا پور کے صدر بازار تھانے میں انسپکٹر تھے تو تفتیش سے ان کو معلوم ہوا کہ سیمی کا حتمی مقصد ملک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ جس کے لیے وہ نفاق‘ سریہ اور جہاد کا سہار ا لے رہے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ’سریہ‘ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے تو جگ تاپ نے کہا کہ سریہ اردو یا فارسی کا لفظ ہے ۔ ان عجیب و غریب حلف ناموں اور جرح کے دوران پولیس افسران کے بیانات سے کبھی کبھی تو جج صاحب بھی ان پر برس پڑتے تھے، مگر جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو انہوں نے پابندی برقرار رکھی۔صرف 2008میں دہلی ہائی کورٹ کی جج گیتا متل کی صدارت میں جب ٹریبونل بنا، تو اس کے جراٗ ت دکھا کر سیمی پر لگائی گئی پابندی کو خارج کر کے کہا کہ ایسے ناکافی ثبوتو ں کی موجودگی میں پابندی کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر ابھی ٹریبونل نے اوپن کورٹ میں آرڈر سنایا ہی نہیں تھا کہ وزرات داخلہ کی ایما پر ایڈشنل سولیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم نے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن کے دروازہ کھٹکھٹایا اور اس فیصلہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی اسٹے کروادیا۔ یہ الگ با ت ہے کہ سیمی کی طرف سے دائر کئی اپیلیں کئی دہائیوں سے عدالت عظمیٰ کی کارروائی کی منتظر ہیں۔ اگر یہ انصاف ہے تو ظلم اور ناانصافی کسے کہتے ہیں؟ اندیشہ ہے کہ یہی ڈرامہ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔ سن 2000کی نوجوان جنریشن کو ٹھکانے لگایا گیا ، ان کے کیرئیربرباد کر دیے گئے اور اب نشانہ سن 2022کی نوجوان مسلم جنریشن ہے۔ جب بھی پی ایف آئی کی پابندی کی توثیق کیلئے ٹریبونل کی تشکیل ہوگی، تو صحافیوں اور ملی تنظیموں پر لازم ہے کہ اس پر نگاہ رکھیں اور دیکھیں کہ حکومت کس طرح کے ثبوت اس کے سامنے پیش کریگی۔ ویسے تو پچھلے کئی برسوں سے ملی تنظیموں خاص طور پر جمعیت علماء ہند اور جماعت اسلامی نے فعال کردار نبھاتے ہوئے متعدد افراد کو قانونی چارہ جوئی فراہم کی، جس سے اکثر افراد اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوگئے، کیونکہ ان کیسوں کی اثاث ہی جھوٹ پر مبنی تھی ۔ا ن تنظیموں کی نوجوانوں کے خلاف کئی شکایات ہونگی۔ شہریت قانون پر ہوئی ملک گیر ایجی ٹیشن میں ان کو اسپیس نہیں دی گئی۔ مگر اس کیلئے انکو اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھنا ہوگا۔ ۔اس وقت ان تنظیموں پر لازم ہے کہ موجودہ کیسز کی پیروی کرکے ان نوجوانوں کو نفرت کی سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے روکنے کا کام کریں۔ورنہ شاید تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کریگی اوروہ 1946میں مارٹین نیمولر کی لکھی گئی نظم کی عملی تصویر بن جائینگے۔۔ پہلے وہ سوشلسٹوں کو لینے آئے، میں بول نہیں سکا، کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا، پھر وہ ٹریڈ یونین والوں کیلئے آئے، میں نہیں بولا، کیونکہ میں ٹرین یونینسٹ نہیں تھا، پھر وہ یہودیوں کو لینے آئے، میں پھر بھی نہیں بولا، کیونکہ میں یہودی نہیں تھا، پھر وہ مجھے لینے آئے اور بولنے کیلئے کوئی بچا نہیں تھا