دہلی ہندوستان کی راجدھانی اور انتظامی طور پر ایک یونین علاقہ ہے، جس کی آبادی ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہے۔ اس کی اپنی منتخب اسمبلی اور وزیراعلٰی ہوتا ہے۔ 2015 ء سے دہلی پر عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ شہر میں بجلی کا نظام پانچ کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے دو سرکاری کمپنیاں ہیں، جو بجلی پیدا کرنے اور ترسیل کے شعبوں سے منسلک ہیں، جبکہ تین نجی بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہیں۔ سرکاری بجلی پیدا کرنے والی کمپنی تو بنیادی طور پر زیادہ تر کوئلہ اور کچھ گیس سے چلنے والے پلانٹس سے بجلی فراہم کررہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹی نجی سولر اور ونڈ سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں بھی شہر کے لیے بجلی فراہم کررہی ہیں۔ دہلی میں قائم بجلی کے پلانٹس کی نصب صلاحیت8471 میگاواٹ ہے، یعنی اس ایک شہر کی نصب صلاحیت پاکستان کی مجموعی صلاحیت کا19.4% ہے۔ دہلی کی تقریباََ تیس فیصد بجلی قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے حاصل کی جارہی ہے۔ اس ساری تمہید کے بعد ہم آپ کو اس بات سے آگاہ کرنے جارہے ہیں کہ دہلی کی سرکار کس طرح کل59 لاکھ بجلی کے صارفین میں سے84% کو بجلی کے بلوں میں سبسڈی فراہم کرہی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے2015ء میں حکومت میں آنے کے بعد اپنے انتخابی وعدے کے مطابق200 یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے والوں کو صفر بل اور400 یونٹ تک کے صارفین کو بل میں50% تک کی سبسڈی فراہم کرنی شروع کردی۔ اس اسکیم کے تحت16.6 لاکھ گھرانوں کو مفت بجلی مل رہی ہے۔ دہلی سرکار نے اس سبسڈی کے لیے اپنے سال2022ء کے بجٹ میں (پاکستانی روپوں میں)117 ارب روپے کی رقم مختص کی تھی، جو کہ اس کے مجموعی2488 ارب روپے کے بجٹ کا محض5% بنتا ہے۔ دہلی سرکار کا مجموعی بجٹ خسارہ صرف1% ہے، جو کہ مرکزی حکومت کی طرف سے ریاستوں کے لیے منظورشدہ4% کی حد سے کافی کم ہے۔ اب دہلی حکومت نے کیسے اپنے وسائل بڑھا ئے، عوامی بہبود پر بجٹ میں اضافہ کیا اور سرکاری اللے تللے ختم کیے،یہ ایک الگ داستان ہے۔ مگر یہاں ہم اپنی بات دہلی میں عوام کے لیے بجلی میں سہولت کاری تک محدود رکھے گے۔ دہلی سرکار کا اپنی تقسیم کار کمپنیوں کو ادائیگی کا ریکارڈ99% اور لائن لاسزصرف8% ہے، جو کہ ہندوستان کی ساری ریاستوں میں سب سے بہترین ہے۔ بجلی کے چھوٹے صارفین میں میٹرکنکشنوں کی طلب بڑھنے کی وجہ سے مجموعی ڈیمانڈ میں20% اضافہ ہوا۔ دہلی کی معیشت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سرکاری محصولات میں معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے اضافہ ہورہا ہے۔ اب ہمارے جید معاشی ماہرین عام آدمی پارٹی کی اس عوام دوست پالیسیوں پر اپنی بھویں چڑھائے گے کہ یہ کیا بات ہوئی دہلی کی عوام کو بجلی کی پوری قیمت ادا کرنی چاہیے اور پاکستان تو ایسی بیہودہ پالیسی تو ویسے ہی نہیں اپنا سکتا کیونکہ ہمارا خزانہ تو خالی ہے۔ جی ہاں ایک ایسا خزانہ جو اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات اور ترقیاتی کاموں کے نام پر رشوتوں کے لیے ہمیشہ بھرا ہوتا ہے۔ مگر کیونکہ ہمارے مغربی نیولبرل معیشت کے پروردہ معاشی دانشور اور ان کے سرپرستوں کے لیے یہی آب حیات ہے جو کہ عوام کے لیے زہر قاتل ثابت ہورہا ہے۔ ہمیںیہ بتایا جارہا ہے کہ بجلی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کوئی آسمانی صحیفے ہیں کہ جن سے رودگرانی پر ہم گناہ عظیم کے مرتکب ہونگے۔ یہاں لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے خودکشیوں کررہے ہیں اور ہم ایک کاغذ کی حرمت کا رونا رو رہے ہیں۔ کیا بجلی کی کمپنیوں سے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید نہیں کی جاسکتی ہے کہ ہمارے صارفین کی بس ہوچکی ہے، یہ مزید مالی بوجھ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی بجلی کی نصب صلاحیت نصف سرکاری کمپنیوں اور نصف نجی کمپنیوں کے پاس ہے۔ لیکن پاکستان میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کاری میں سرکاری کپمنیوں کی اجارہ داری ہے، جبکہ ہندوستان میں نجی شعبہ کی اس میں کافی موجودگی ہے۔ مگر ہندوستان کے پالیسی سازوں میں شاید زیادہ دور اندیشی ہے کہ انہوں نے درامدی فیول جیسے کہ تیل اور ایلین جی پر اپنا دارومدار کم رکھا اور اپنے توانائی کے مکس میں مقامی کوئلے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کا تناسب زیادہ رکھا۔ اس وقت ہندوستان میں بجلی کی مجموعی نصب صلاحیت کا49.1% کوئلے اور30.2% قابل تجدید توانائی جیسے کہ سولر اور ونڈ پر مشتمل ہے۔ ہندوستان بجلی میں خودکفیل ہے اور پاکستان سے دس گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہندوستان خطے کے مختلف ممالک جیسے کہ بنگلہ دیش، نیپال اور میانمار کو بجلی برامد کررہا ہے۔ سری لنکا اور متحدہ عرب امارات سے زیرسمندر کیبل کے ذریعے بجلی فراہمی پر بات چیت چل رہی ہے۔ کیونکہ ہندوستانی بجلی کی صنعت میں سستی بجلی پیدا کرنے کی اتم صلاحیت موجود ہے۔ اب یہ ہمارے عوام کے لیے بھی سمجھنا ضروری ہے کہ بجلی کے بلوں کا یہ بحران ہماری خودغرض اور کرپٹ اشرافیہ کی دین ہے۔ ہندوستان کے اوسط لائن لاسز ہم سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح وہاں بھی تقسیم کار کمپنیوں کی ادائیگیاں سرکاری اداروں میں پھنسی رہتی ہیں، مگر وہاں نجی بجلی کمپنیوں کے ساتھ ٹیرف بھارتی روپے میں طے کیا گیا ہے۔ پاکستان کی اعلٰی تعلیم یافتہ بیوروکریسی اور دوراندیش حکمران پہلے تو بجلی کا بحران پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کوجلد حل کرنے کی ہلہ شیری میں اپنی دیہاڑیاں لگاتے ہیں۔ انہوں نے نجی شعبے کو بجلی کی پیداوارتک محدود رکھا تاکہ انہیں ادائیگیوں کی سرکاری گارنٹیاں دے کر ان کی مستقل رسک فری کمائی اور اپنا مستقبل محفوظ کیا۔ پھر پچھلی تین دیائیوں سے ترسیل اور تقسیم کار کمپنیوں میں نہ اصلاحات کی اور نہ ہی نج کاری کی، تاکہ یہاں بھی اوپر کی کمائی اور منظورنظر افراد کی بھرتی کا ذریعہ بنا رہے۔ ہمیں رام لیلا کی کہانی سنائی جارہی ہے کہ انکل آئی ایم ایف نے سختی سے منع کیا ہے کہ لوگوں کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دینا ہے۔ مگر بجلی کے مگرمچھ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں میں بھاری ٹیکس حکومتی خسارا پورا کرنے کے لیے اور بجلی کی بھاری قیمت کرپشن کی رقم اور بجلی کپمنیوں کو کھلا مال بنانے کے لیے ہے۔ جیسے کہ سیاہ فاموں کی امریکہ میں تحریک میں نعرہ ’انصاف نہیں تو امن نہیں‘ ان پر ظلم و ستم کی عکاسی کرتا تھا۔ اس طرح پاکستانی عوام بھی اپنے ساتھ معاشی نا انصافی کی اجازت نہیں دی سکتے ہیں۔ اب حکومت کو کم یونٹ والوں کو بجلی کے بلوں میں سبسڈی دینا ہونگی، اپنے ٹیکس کم کرنے ہونگے اور بجلی کپمنیوں سے معاہدات میں قیمتوں پر گفت و شنید کرنی ہونگی۔ اس سے کم پر کسی عوامی ریلیف پر بات نہیں ہونی چاہیے۔