پاکستان کی ریاست اس وقت ایک عجیب بحران کا شکار ہے ۔ عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل کچھ اور ہیں جب کہ حکمرانوں اور اداروں کی توجہ کچھ اور معاملات پر ہے ۔لگتا ہے سب بند گلی میں پہنچ گئے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ کسی کو بھی سجھائی نہیں دے رہا یا اس سے نکلنا ہی کسی کا مقصود نہیں۔ سیاسی ادارے تو کبھی مضبوط نہیں تھے مگر اب ریاستی ادارے ( فوج،بیوروکریسی اور عدلیہ ) بھی سیاسی معاملات میں الجھ کر تنازعات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اداروں کی یہ صورت حال ریاست کو مسلسل کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے لئے انتخابات کی تاریخ کے ابہام سے متعلق سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ایک لارجر بنچ کی تشکیل کردی ہے جو اس ضمن میں آئینی صورت حال کی وضاحت کرے گا۔صدر مملکت نے خیبر پختو نخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے لئے انتخابات کے لئے نو اپریل کی تاریخ مقرر کردی ہے ۔الیکشن کمیشن جو در اصل انتخابات کرانے کا آئینی طور پر ذمہ دار ہے وہ گو مگو کی کیفیت میں ہے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے جیل بھرو تحریک شروع کر رکھی ہے اسی کے ساتھ ساتھ جو سیاسی قائدین از خود جیل جانے کے لئے گرفتار ہوئے ہیں ان کے اہل خانہ کی جانب سے عدالتوں میں حبس بے جا کی اور بازیابی کے لئے درخواستیں بھی دائر کی جارہی ہیں۔ جیل بھرو تحریک کے ساتھ ہی تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپسی کے لئے بھی راستے تلاش کر رہی ہے تاکہ قومی اسمبلی کی مدت پورے ہونے پر قائد حزب اختلاف کی پوزیشن پر رہتے ہوئے نگران حکومت کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال سکے۔قومی احتساب بیورو ( نیب ) کے چیئرمین جناب آفتاب سلطان اپنے منصب سے مستعفی ہوگئے ہیں ۔ استعفی کی وجہ ان پر حکومت کی جانب سے غیر ضروری دبائو ظاہر کی گئی ہے۔یہ اور اسی طرح کی دیگرسیاسی ،آئینی اور عدالتی موشگافیوں نے پاکستان کا انتظامی اور حکومتی نظم مفلوج کر رکھا ہے۔سیاست دان، عدالتیں، ا نتظامی افسران، قانون نافذ کرنے والے ادارے سب غیر ضروری طور پر الجھائے جانے والے معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سیاست اور ریاست پر یاسیت اور غیر یقینی کے سائے ہر لمحہ بڑھ رہے ہیں ۔ اس سارے منظر میں مہنگائی میں پسے ہوئے عوام،بند ہوتی ہوئی صنعتیں اور کارخانے ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، ختم ہوتی برآمدات اور پورٹ پر ڈالرز کی منتظردرآمدات،تباہ حال زراعت ، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور طاق نسیاں پر رکھ دیے جانے والے سیلاب زدہ متاثرین جیسے معاملات کی فکر کرنے کی فرصت نہ کسی ادارے کو ہے اور نہ ہی اعلی مناصب پر براجمان شخصیات کو ہے ۔ آئینی طور پر یہ ریاست اسلامی جمہوریہ ہے،شہریوں کے حقوق متعین ہیں ، پارلیمنٹ ہے ،عدالتیں ہیں ، اور قومی سلامتی کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے ہیںمگر صورت حال ہر اعتبار سے مخدوش نظر آتی ہے۔ یہ ادارے یہ مناصب ،یہ آئین اور اس میں دیے گئے تحفظات، یہ مملکت ،اس کا جغرافیہ اور اس کے وسائل سب کچھ اس کے بائیس کروڑ شہریوں ہی کے لئے ہیں نہ کہ چند ہزار اشرافیہ کے لئے جو اب تک اس مملکت کے ساتھ جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے اس مقتدر اشرافیہ میں ،سیاست دان ہیں ،بیوروکریٹ ہیں ،ججز اور جنرلز،اور مختلف نوعیت کی تجارتی ، تعمیراتی،صنعتی اور زرعی معیشت سے وابستہ بااثر اور طاقتور گروہ شامل ہیں ۔ ا س میں کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ہر کوئی حسب موقع اور طاقت قومی وسائل کی لو ٹ مار میں شریک ہے ۔یہ سارا تماشہ اسی اشرافیہ کا لگایا ہوا ہے بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ سب ایک ہیں ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کو سطحی نوعیت کے معاملات میں الجھا کر حقیقی مسائل اور معاملات سے توجہ کو ہٹائے رکھا جائے۔ قومی وسائل کو جس بے دردی کے ساتھ لوٹا گیا ہے عوام اس سے غافل ہی رہیں۔ انتخابات آج ہوں یا کل حکمرانی کے لئے قر عۂ فال ان ہی میں سے کسی کا نکلے گا ۔ شطرنج کی بساط پر کچھ مہرے آگے پیچھے کرتے ہوئے کھیل اسی طرح جاری رہے گا ۔و ہی بے بس حکومت اور وہی انداز حکمرانی پھر مقدر بنا دی جائے گی ۔ داخلی اور خارجی طور پر پاکستان کی ریاست آج جن خطرات میں گھری ہوئی ہے اور جن مسائل کا اسے سامنا ہے اس کے اثرات سے عام آدمی کو ہی متاثر ہونا ہے ۔ ریاست قرضوں کی دلدل میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے ۔ گزشتہ چالیس سالوں میں لئے جانے والے قرضے کہاں اور کیسے استعمال ہوئے ،ریاست اور اسکے شہریوں کے معاملات کتنے بہتر ہوئے۔ان کی ادائیگی کب اور کیسے کرنی ہے ان سب معاملات پر کبھی کسی نے پارلیمنٹ میں ، جسے عوام کی نمائندہ سمجھا جاتا ہے ، نہ کوئی بحث کی ہے اور نہ کسی ادارے نے از خود نوٹس لینے کو ضروری سمجھا ہے ۔اس لئے کہ قرضوں کا سارا بوجھ تو عوام نے ہی ا ٹھانا ہے اور وہ سوال کرنے سے محروم رکھے گئے ہیں۔ عوام کو سیاسی اور مذہبی عقیدتوں کے جال میں الجھا کر ان کی طاقت اور توجہ کو تقسیم کردیا گیا ہے۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ عوام ہر طرح کی عصبیتوں اور عقیدتوں کے حصار کو توڑتے ہوئے اپنی مشکلات اور مسائل کی حقیقی ذمہ دار قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنا سیکھ جائیں۔یہی تبدیلی کا درست راستہ ہے۔ ٭٭٭٭٭