پرسکون زندگی میں سب سے اہم کردار گھر کے افراد کا ہوتا ہے۔ شاید گھر کے ماحول کی وجہ سے لفظوں میں تلخی زیادہ شیرینی کم ہو، لیکن ماہرین متفق ہیں کہ حقیقی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ مشرقی ماحول میں مشترکہ خاندانی نظام نے کئی خامیوں کو چھپانے میں مدد کی ۔عموماََ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی کے شہرت کے حساب سے اُس سے توقعات بھی بہت بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے افراد کے تعلقات تو ہوتے ہیں لیکن اس کی مختلف مدارج ہیں اگر سامنے والا صرف یہ کہہ دے کہ میرے تعلقات تو ہیں لیکن اس نہج کے نہیں ہیں جیسا آپ سمجھتے ہیں تو شاید اس کا یقین کرنا مشکل ہو۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ایک تقریر میں بزرگ سیاست دانوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا ۔ یہ ایک صائب مشورہ ہوتا جب وہ سابق صدر آصف علی زرداری کا بھی نام لیتے ،زرداری کی سیاست سیکھنے کے لئے انہیں کئی بار پیدا ہوناہوگا ، مجھے یہ سوال پوچھنا تھا کہ خدا نخواستہ وہ کبھی اقتدار میں آئے تو سیاست میں ریٹائرمنٹ عمر کی حد مقرر کردیں گے ، لیکن میں یہ سوال نہیں پوچھنا چاہتا ، کیونکہ بلاول بھٹو زرداری کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے ۔ اس کے لئے انہیں آصف علی زرداری ، مولانا فصل الرحمن ، میاں نواز شریف ، اسفندیار ولی خان ، محمود خان اچکزئی ، عمران خان ، سراج الحق ،سمیت تمام بزرگ سیاست دانوں کی طرز سیاست کی اچھائیوں کو لینا ہوگا ، عمر سے بڑھ کر اپنے بزرگ سیات دانوں کے لئے ایسا بیانیہ مت بنائیں کہ کل کو ان کی زد میں آجائیں۔ بلاشبہ بلاول بھٹو زرداری ایک قومی جماعت کے سربراہ ہیں،ان سے ان کے کارکنان کی توقعات ہیں انہیں قابل عمل بنائیں۔ مجھے یہ سوال پوچھنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ پی پی پی وہ اونٹ ہے جہاں بیٹھے گا،وہی حکومت بنے گی ، کیا انہوں نے اعتراف کرلیا ہے کہ وہ وزیراعظم اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے شراکت دار نہیں بن جاتے تو پھر کل کو جو بیانیہ ان کے سامنے آئے گا تو پھر وہ کیا کریں گے ، سیاست کو خدمت تک محدود رکھیں ، مفادات کی سیاست کی حدود مقرر کریں ، لیکن میں یہ سوال نہیں پوچھ سکتا ، آج کل جیالے بھی مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ پھر قادر پیٹل، شرجیل میمن ، جیسے رہنما ئوں کی گل افشانی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ میں اب یہ پوچھنا چاہوں کہ جب مولانافضل الرحمن نے پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لئے دھرنے ، لانگ مارچ ، جلسے جلوس کئے تھے تو اس سے انہیں کیا حاصل ہوا، کیا پی ڈی ایم حکومت بننے کے بعد کو انہیں جو ملا وہ اسی کا ثمر تو نہیں تھا، تو میں یہ بات نہیں پوچھ سکتا کیونکہ مجھے بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کی تقاریر کے اقتباس دینے کا موقع نہیں اس لئے میں سوال زنبیل میں ڈال لیتا ہوں۔ اس وقت میں یہی سوچتا تھا کہ نہ جانے مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد سے کیا ملے گا کہ انہوں نے گیڈر سینگھی کی طرح اُس کو چھپا رکھا ہے۔ چلیں میرا تعلق تو کسی سیاسی جماعت سے نہیں ، کچھ احباب کی ناراضیوں کی وجہ سے بھی حسن ظن سے کام لے لیتا ہوں۔ مجھے ایک کہاوت یاد آ گئی کہ جب تک آپ میں سوال و جستجو کا مادہ نہ ہو تو بھیڑ چال پر چلتے رہیں گے۔ کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں کسی غریب بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن اہل علم سے تعلیم کا حصول اس کو مالی وسائل کی وجہ سے اجازت نہیں دیتا تھا۔ پھر اُس نے اپنی گاؤں میں شاندار گھوڑے پر سوار، اچھے لباس کے ساتھ ایک شخص کو معروف شخصیت کے گھر جاتے دیکھا، روزانہ آنے جانے کے ماحول سے جلد علم ہوگیا کہ دولت مند نے اپنے بچے کے لئے ایک معروف و صاحب علم کی خدمات حاصل کی ہیں۔اب اس غریب بچے کی اتنی استطاعت نہیں تھی، اس لئے وہ روز گھر کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا اور عالم کو گھوڑے کی سواری پر جاتے دیکھتا۔ ایک دن عالم نے پوچھ لیا کہ صاحب زادے کیا وجہ ہے کہ مجھے یوں روز دیکھتے ہوں، طالب علم نے اپنا مقصد شوق بیان کیا۔ آنکھوں میں طلب علم کی چمک تھی۔عالم نے کہا کہ میں تو صبح تا شام مصروف ہوتا ہوں، میرے لئے تو ممکن نہیں کہ تمھیں وقت دے سکوں، بچے نے کہا کہ حضرت، آپ یہاں سے جتنا سفر گھوڑے پر سوار ہو کر کرتے ہیں۔ میں اس دوران چلتے چلتے آپ سے سوالات پوچھ لیا کروں گا۔ عالم رضا مند ہوگئے۔ اگلے دن طالب علم اچھی طرح تیار ہو کر جب عالم کے ساتھ چلا تو اُس کے پاس اتنے سوالات تھے کہ بارہ میل کے سفر کے دورا ن ختم ہی نہیں ہوئے۔ یہاں تک بتایا جاتا ہے کہ کئی برسوں تک یہ سلسلہ جاری رہا اور سوالات ختم نہ ہو سکے۔ اس طالب علم کو دنیا آج امام غزالی ؒ کے نام سے جانتی ہے۔ کبھی کبھار نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ کسی مچھیرے کے پاس شکار کی ہوئی مچھلیاں و کیکڑے ہیں،جنہیں وہ الگ الگ رکھتا ہے۔ مچھلیوں کو ڈرم میں بند کرتا ہے اور کیکڑے کو ڈرم میں آزاد رکھ کر اُس پر ڈھکن نہیں رکھتا۔ شاید وہ جانتا ہے کہ مچھلی میں تڑپ ہے وہ اچھل کود کرکے آزاد ہونے کی کوشش کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے نکلنے کے راستے روک دیئے گئے ہیں، لیکن کیکڑے کو اس لئے آزاد رکھا کیونکہ جب بھی کوئی کیکڑا اسیری سے باہر نکلنا لگتا ہے تو دوسرا کیکڑا اس کے ٹانگیں کھینچ لیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکل پاتا۔ شاید … ٭٭٭٭٭