پاکستان سے براستہ قطر جرمنی کا سفر کافی تھکا دینے والا تھا۔ دوہا میں پندرہ سولہ گھنٹے کا ٹرانزٹ کسی امتحان سے کم نہیں تھا لہذا ائیرپورٹ پر اتنے گھنٹے ضائع کرنے کے بجائے میں نے دوہا کی سیر کرنے اور کچھ نیا دیکھنے کو ترجیح دی۔ اب ایک پاکستانی ہونے کے ناتے ہم دنیا میں کہیں بھی سفر کریں تو لامحالہ موازنہ اپنے ملک سے کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ ایسا ہی تجربہ میرے ساتھ ہوا۔ پاکستان کے مقابلے میں قطر ہر لحاظ سے ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سمندر کے کنارے سجا ایک حسین جزیرہ نما عرب ملک جسکی آبادی لگ بھگ تین ملین ہے۔ جہاں چالیس فیصد قطری اور باقی ساٹھ فیصد آبادی انڈین ، پاکستانی ، بنگلہ دیش ، نیپال، سری لنکا فلپائن اور مصر کے لوگوں پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ ایک حیران کر دینے والا انتہائی خوبصورت، جدید اور منظم ملک ہے۔ قطر ائیر ویز دنیا کی بہترین ائیرویزمیں شامل ہے اور گزشتہ فٹبال ورلڈ کپ کی قیادت کے بعد دوہا ایئرپورٹ مزید کشادہ ، جدید اور نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو چکا ہے۔ جہاں دنیا بھر سے پروازوں کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ وہاں ایئرپورٹ پر بیھٹے اپنی پی آئی اے سے موازنہ کیا، قطر کے صرف ایک ائیرپورٹ کا اپنے وطن کے تمام ائیرپورٹس سے موزانہ کیا، باہر نکلے تو دوہا کے جدید و قدیم بازاروں ، شاپنگ سینٹرز، میٹرو اسٹیشنز ، جدید ترین ٹریفک سسٹم، صاف ستھری سڑکیں اور انتہائی خوبصورتی سے سجے سجائے شہر کا اپنے شہروں سے موازنہ کیا تو سر شرم سے جھکتا ہی چلا گیا۔ ہمارے حکمران ایک میٹرو اور ایک اورنج لائن بنا کر پھولے نہیں سماتے جبکہ وہاں زیر زمین گولڈن، گرین اور ریڈ لائنزکا سسٹم اپنی مثال آپ ہے جو دوہا کو باقی تمام شہروں سے جوڑتا ہے۔ قطر نیشنل لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بھی ایک الگ ہی سماں تھا۔ انتہائی جدید اور سمارٹ ٹیکنالوجی پر مشتمل لائیبریری وہاں کی حکومت کو سر اٹھائے خراجِ تحسین پیش کررہی تھی کہ جس نے علم کے پروانوں کیلیے اتنا بہترین اور مکمل ماحول فراہم کر رکھا تھا اور میرے لیے مزید حیران کن امر وہاں پہ لوگوں کی کثرت تھی۔ لائبریری کی تمام نشستیں پر تھیں اور بنا کسی شور شرابے کے سبھی اپنی کتابوں میں مگن دکھائی دیئے۔ سولہ گھنٹے کے دورانیے میں جو پہلی بات میں نے جانی وہ یہ تھی کہ اپنے وطن کو پروان چڑھانے، ترقی یافتہ بنانے کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضروت نہیں ہوتی۔ قطر کے پاس تو صرف ایک تیل کا خزانہ ہے اور اس نے اسی ایک خزانے کو عقلمندی ، دور اندیشی اور دیانتداری کیساتھ استعمال کیا اور آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور مشرق وسطیٰ میں سب سے آگے ہے۔ جبکہ اسکے برعکس اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیشمار معدنی ذخائرسے مالا مال کیا ہے۔ بہترین اسٹرٹیجک پوزیشن عطا کی لیکن بدقسمتی سے ہمیں کبھی عقلمند ، ذہین اور دیانتدار قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ ہم پاکستانی آج دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں ہمارے سر شرم سے جھکے ہی رہتے ہیں۔ وہاں بہت سے پاکستانی لوگوں سے سامنا ہوا لیکن کسی کے چہرے پر خوشی اور اطمینان دیکھنے کو نہیں ملا۔ سبھی کے چہروں سے مایوسی اور بے چینی عیاں تھی۔ ہمارے وطن کی معاشی بدحالی نے پردیس میں رہنے والوں کو بھی بیچین رکھا ہوا ہے۔ قطر میں پاکستانیوں کی اکثریت مزدور اور محنت کش طبقے سے ہے جو دن رات کی جان لیوا مشقت کے بعد چند پیسے کما کر گھر والوں کو بھیجتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اپنی افرادی قوت پر توجہ دے ، انہیں جدید ٹیکنالوجی اور دورحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ٹریننگ دے کر ان ممالک میں بھیجے تو یہ محنت کش طبقہ کہیں زیادہ کما سکتا ہے اور قدرے بہتر معیار زندگی گزار سکتا ہے۔ مشرق وسطی میں مقیم وہ پاکستانی جن کے پاس اعلی تعلیم، باقاعدہ ہنر یا اعلیٰ ڈگری نہیں ہے وہ بہت دگرگوں حالات اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ میرے لیے سب سے تکلیف دہ منظر وہاں بھیک مانگتے پاکستانی تھے۔ اپنے وطن، گھر اور خاندان سے دور آنکھوں میں کئی خواب سجا کر بسنے والے خود مانگنے پر مجبور ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔ وطن عزیز کی باگ ڈور سنبھالنے والے جب خود ساری دنیا میں کشکول تھامے گھومیں گے تو لامحالہ اس قوم کا بھی یہی مقدر ہوگا۔ پاکستان کی سبھی سیاسی جماعتیں ، سیاستدان اور حکمران درحقیقت اپنی عوام کے مسائل سے ناآشنا ہیں۔ اور اگر جانتے بھی ہیں تو کوئی ان مسائل کو حل کرنے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتا۔ فی الوقت الیکشن کا شور ہے اور سیاسی بیان بازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی کو فکر نہیں کہ اگلے دس سال میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا۔ کسی کو یہاں کے نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے کی لگن نہیں اور کسی کے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں جو ہمیں ہماری سمت دکھا سکے۔ ایک ایسا ملک جو کبھی ایشین ٹائیگر کہلاتا تھا آج ایک کمزور، لاغر اور بھیگی بلی کی مانند ساری دنیا کو مدد طلب نظروں سے دیکھ رہا ہے کہ کوئی تو ہماری مدد کرئے اور ہمیں ان بحرانوں سے نکالے۔ لیکن آخر کب تک؟؟ آخر کب تک ہم دوسروں کی دی ہوئی بیساکھیوں پہ چلیں گے جو ہمیں وقتی سہارا تو دیتی ہیں لیکن درحقیقت مزید کمزور کر دیتی ہیں۔ ہمیں معاشی و سیاسی طور پر آزاد اور خودمختار ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کئی گنا چھوٹے ملک سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسطرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوا جاتا ہے۔ آزادی ، خودمختاری اور ترقی کی بہترین مثال قائم کرنے کیلیے ہم یورپ، امریکہ اور چین کو تو مات نہیں دے سکتے۔ کیا قطر جیسے جزیرہ نما ملک کی تقلید بھی ناممکن ہے؟ دنیا کا مقابلہ کرنے اور خود پر سے بھکاری پن کا لیبل ہٹانے کیلیے صرف دیانتدار ، مخلص اور محنتی قیادت درکار ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیشمار وسائل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ کمی ہے تو صرف قیادت کی، سچے راہنما کی، وسائل کی منصفانہ تقسیم کی، دوراندیشی اور باہمی افہام و تفہیم کی اور کرپشن سے پاک پاکستان کی !!