بلوچستان میں مسلح کارروائیوں کے ساتھ ساتھ فکری اور تاریخی حقائق کو مسخ کر کے نئی نسل کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔حکومتیں لوگوں کی بنیادی محرومیاں دور نہیں کر سکیں اس لئے حقائق مروڑنے والے بے خوف ہیں ،حالیہ دنوں بہت سے لوگوں کو یوم پاکستان پر اعزازات سے نوازا گیا ۔ایک بھی سائنسدان ، زرعی ماہر اور قوم کا دفاع کرنے والا تاریخ دان نہیں۔اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ بھارت کشمیر کے الحاق جیسا کیس بنانے کے لئے بلوچستان کے الحاق پر اعتراض کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے ۔ گزشتہ برس خان آف قلات ہونے کا دعویٰ کرنے والے میر سلیمان داؤد جان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ایک خط لکھا ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندوستانکی تقسیم کے بعد پاکستان نے ریاست قلات کو اپنا حصہ بنا لیا۔ یہ حقائق کے منافی ہے اور علیحدگی پسندوں کی مایوس کن کوشش ۔پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا لیکن قلات کا الحاق مارچ 1948 تک نہیں ہوا اور اس کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہے۔ لسبیلہ اور خاران سمیت تمام علاقوں کے نواب حضرات نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ خان آف قلات نے ان کے بعد پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ لسبیلہ اور خاران دونوں کو اس وقت انگریزوں نے آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ قدرتی طور پر قلات سمیت بلوچستان پہلے دن سے پاکستان کا حصہ تھا۔ 1940 میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو قاضی عیسیٰ بلوچستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انہوں نے اس قرارداد کی بھرپور حمایت کی جس نے بالآخر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کوملنے والا بلوچستان تین قسم کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ سب سے پہلے، اس علاقے کی ایک لمبی پٹی تھی جو بلوچستان کو افغانستان اور شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختونخوا) سے الگ کرتی تھی۔ یہ دونوں علاقے براہ راست انگریزوں کے زیر انتظام تھے اور اس علاقے کا مقصد بلوچ قبائل کو ان کے پڑوسیوں سے الگ تھلگ کرنا تھا۔ دوسری بات یہ کہ کچھ اضلاع ایسے تھے، جنہیں خان آف قلات نے لیز پر دیا تھا۔ اس وقت کے چیف کمشنر کے پاس ان لیز پر دیئے گئے اضلاع اور براہ راست اپنے زیر انتظام پٹی کا کنٹرول تھا۔ تیسرا وہ علاقہ تھا جس پر سرداروں کا کنٹرول تھا، ان سرداروںکا انگریز حکومت کے ساتھ معاہدہ تھا۔ وہ داخلی طور پر آزاد تھے لیکن ان کے بیرونی تعلقات حکومت ہند کے زیر کنٹرول تھے۔ بلوچستان کی شمولیت کے معاملے پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے 17 مارچ 1948 کو لندن کو ایک ٹیلی گرام بھیجا؛ اس ٹیلی گرام میں کہا گیاکہ پاکستان نے خاران، لسبیلہ اور مکران کے الحاق کو قبول کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے لیے درخواست دی تھی۔ اس الحاق سے قلات کا حجم ڈیڑھ سے زیادہ کم ہو گیا جبکہ یہ ریاست ساحل سے مکمل طور پر کٹ گئی۔ نتیجہ میں قلات الگ تھلگ اور لینڈ لاک ہو کر رہ گیا۔ 27 مارچ کی رات آل انڈیا ریڈیو کی طرف سے ایک اعلان کیا گیا کہ ہندوستانی یونین نے ریاست قلات کی بھارت سے الحاق کو قبول کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے اور یہ درخواست کوئی دو ماہ قبل کی گئی تھی۔ خان آف قلات کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا اور پھر انہوں نے پاکستان تک رسائی کے لیے خاران، لسبیلہ اور مکران کی پیروی کی۔ الحاق کی دستاویز پر خان آف قلات نے 27 مارچ کو دستخط کیے تھے اور یہ دستاویز 31 مارچ 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے پیش کی گئی۔ الحاق کے دوران جولائی 1948 کے وسط تک کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ جب خان کا بھائی افغانستان سے واپس آیا تو اس نے مزاحمت کی کارروائیاں شروع کر دیں ۔الحاق سے قبل وہ مسلح پیروکاروں کے ایک گروپ کے ساتھ افغانستان فرار ہو گیا تھا۔ سکیورٹی اداروں نے اس گروہ اور اس کے پیروکاروں کی اکثریت گرفتار کر لی۔ شرپسند اور ریاست مخالف عناصر کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈا تاریخ مسخ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ خان آف قلات احمد یار خان نے 27 مارچ 1948 کو انسٹرومنٹ آف ایکسیشن پر دستخط کرکے جب31 مارچ 1948 کو پیش کیا تو صوبے کا شاہی جرگہ اور کوئٹہ بلدیہ کے غیر سرکاری اراکین پہلے ہی 29 جون 1947 کو پاکستان میں شامل ہونے پر رضامند ہو چکے تھے۔ بلوچستان الحاق کے معاملے پر غلط فہمی پیدا کرنے کے باعث حساس ہوتا گیا یوں ریاست بھی بلوچستان کے متعلق حساس ہو گئی۔ بلوچستان میں ریاست ایسی سیاست کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس میں تمام شناختوں کی نمائندگی ہو۔ 18ویں آئینی ترمیم سے بلوچستان کو ملنے والے حقوق اور وسائل میں اضافہ کیا گیا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے میگا پروجیکٹس بلوچستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار اداکررہے ہیں۔بلوچستان کے لوگوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور کرنے کی کوششوں سے وہ ترقیاتی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں جو اس صوبے کی پسماندگی، افلاس اور محرومی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ شرپسند اور ریاست مخالف عناصر کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈا تاریخ مسخ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔اپنے مذموم مقاصد کیلئے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش دراصل سرکاری ریکارڈ پر موجود حقائق کے منافی ہے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزپر خان آف قلات اور حکومت پاکستان کے باہمی مفاہمت سے دستخط کیے گئے ۔ قائداعظم اور خان آف قلات کے درمیان نہ صرف خوشگوار دوستانہ تعلقات تھے بلکہ قائد اعظم ان کے وکیل بھی تھے۔ خان آف قلات احمد یار خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق اکثریتی آبادی کی خواہش کو دیکھ کر کیا تھا۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے تھے۔پاکستان کے ساتھ قلات کا الحاق بلوچ شناخت اور براہوی زبان کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری تھا۔بلوچستان پاکستان کا جغرافیائی ہی نہیں نظریاتی اثاثہ بھی ہے ۔اس کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ہر کوشش کا جواب آنا چاہئے۔