پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئٹہ میں چھپنواں یوم تاسیس منانے اور پھر سیاست کو نئے ڈھنگ اور ڈھب سے استوار کرنے کے فیصلے کے پیچھے محرکات واضح ہیں۔ نواز شریف کی چار سال پر محیط خود ساختہ جلاوطنی سے واپسی پر سے 'ڈرامائی ' واپسی کے بعد سیاست میں آنے والے بھونچال اور علاقائی جماعتوں کی موقع پرستی کی وجہ سے پیپلز پارٹی اپنے آپ کو سندھ میں محصور سمجھنے لگ گئی تھی۔جب میاں صاحب اپنی بیٹی ، مریم نواز،کے ساتھ بلوچستان گئے اورقابل انتخابات قیادت میں ستر فیصد کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا تو پینتیس سالہ بلاول کے ارمان جاگ اٹھے۔ انہیں امید تھی کہ میاں صاحب قانونی پیچیدگیوں کی موجودگی میں یا تو واپس نہیں آئیں گے اور اگر آموجود ہوئے تو انہیں ائرپورٹ سے ہی گرفتار کرلیا جائیگا۔ سامنے کا مسئلہ ہے کہ میاں صاحب ہرقانونی رکاوٹ کو روند کر ، بالکل سرکاری پروٹوکول میں وطن واپس آگئے اور ساتھ ہی ن لیگ کے احیا اور اسے اگلے عام انتخابات میں جتوانے کی مہم پر لگ گئے۔ سندھ میں ، پیپلز پارٹی کی غنیم ، ایم کیو ایم اور جی ڈے اے ،سے اتحا کرلیا۔ اپنی بیٹی کے ساتھ بلوچستان گئے تو وہاں جھاڑو ہی پھیر کررکھ دیا ۔ اس پسماندہ لیکن معدنیات سے مالامال صوبے کی کوئی ایسی قابل ذکر پارٹی نہیں بچی جسے اس نے نہ توڑا ہو۔ پچھلے میثاقی دور میں پیپلز پارٹی نے سندھ کو قابو کیا ہواتھا تو وفاق میں بھی اسکو اسکا جائز حصہ مل جاتا تھا۔ اب جب پیپلز پارٹی کو امید تھی کہ ن لیگ کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کی غریب کش پالیسیوں اور تحریک انصاف کے کچلے جانے کا فائدہ یہ اٹھائے گی تو میاں صاحب آن موجود ہوئے۔ زمینی حقائق کے پیش نظر، پیپلز پارٹی کی نوخیز قیادت کی نظریں عوام کی طرف اٹھ گئی ہیں کہ شاید وہ اس اشرافیائی ٹولے کو اپنے ووٹ کی طاقت سے شکست دے دیں جنہیں انکے والد گرامی پچھلے پندرہ سال سے متحد رکھنے کی کوششوں میں لگے تھے۔ اگر بینظیر بھٹو زندہ رہتیں تو یہ کام، جو بلاول بھٹو زرداری اب کرنے کی کوشش میں ہیں، بہت پہلے ہوجاتا۔ جنوبی پنجاب کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا زرداری صاحب کی مفاہمت پرستی کی نظر ہوکر تحریک انصاف کی باہوں میں سمٹ گیا تھا، اسے واپس لانا ایک چیلنج ہے۔ شمالی اور وسطی پنجاب کا قبلہ کب سے لاہور ہے۔ پختونخواہ کی اپنی سیاست ہے کہ یہاں صرف اتحادی ہی مل سکتے ہیں یا پھر وہی اکا دکا سیٹیں جو دیگر صوبوں سے سے اسے مل جاتی ہیں۔ اس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری کے لے پیپلز پارٹی کا احیا لازم تھا۔ پچھلے ہفتے کوئٹہ میں منائے جانے والے یوم تاسیس میں اس سوچ کی واحد جھلک نظرآئی۔ بلاول بھٹو زرداری نئی سیاست کی بات کر تھے۔ اب پیپلز پارٹی اپنے '' روٹی، کپڑا اور مکان'' کے نعرے کو ایک نئے انداز میں پیش کر رہی ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ غریب طبقات، مزدور اور کسان، کی جیب تک اتنا پیسہ پہنچادوکہ وہ اپنے لازمی اخرجات سے نمٹ سکیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کوخواتین کے علاوہ دیگر دیگر طبقات تک یقیناً پھیلا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو جانتے ہیں اب خسارے کے شکار اداروں کو نجکاری سے نہیں روکا جاسکتا اور نہ ہی اب سرکاری نوکریوں کے وعدے کیے جاسکتے ہیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی کی کامیابی کا دارومدار نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ تحریک انصاف نے بھی یہ حکمت عملی اختیار کی تھی ۔ جب تیل اور بجلی سستے نہیں ہوسکتے اور اشیائے ضرورت تک کے ٹیکس میں کٹوتی حکومت کے بس میں نہیں تو پیسہ پھینک کر ہی تماشا جاری رکھا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نہایت سادگی سے کہہ رہے ہیں لازم نہیں تحریک انصاف ہو۔ پیپلز پارٹی بھی عوام سے رجوع کرسکتی ہے۔ لیکن معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے اور اسے رواں دواں رکھنے کے لیے نہ تو تحریک انصاف کے پاس کو ئی گیدڑ سنگھی تھی اور نہ ہی پیپلزپارٹی کے پاس۔لازمی نہیں کہ سیاسی پارٹیاں ہی معیشت کا مسئلہ حل کریں۔ انکا مسئلہ سیاست ہے اور اس میں راستے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو جانتے ہیں اب خسارے کے شکار اداروں کو، جن سے پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک جڑا تھا، نجکاری سے نہیں روکا جاسکتا اور نہ ہی اب سرکاری نوکریوں کے وعدے کیے جاسکتے ہیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی کی کامیابی کا دارومدار نوجوان ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ تحریک انصاف نے بھی لوگوں میں سرکاری سطح پر پیسہ بانٹنے اور، اس طرح، لوگوں کی قوت خرید مستحکم رکھنے کے لیے یہ حکمت عملی اپنائی تھی۔آزاد معیشت اب مقدر بن ہی گئی ہے تو اس کے ساتھ نباہ لازمی ہے۔ نجکاری کے بغیر چارہ نہیں اس گرداب سے نکلنے کا۔ پیپلز پارٹی نے ماضی میں اس عمل کی مخالفت کی لیکن ساتھ ہی مقامی حکومتوں کے نظام کی بھی ۔ اگر مشرف دور کے بعد اقتدار میں آنیوالی پارٹیاں صوبائی اور لسانی تعصبات کی بھینٹ نہ چڑھتیں تو شاید سیاست ،اور اسکے نتیجے میں معیشت، اس بند گلی میں نہ پھنستی۔ اگر معاشی ترقی کا حل نجکاری تھی تو ترقی کا پھل مقامی حکومتوں کے ذریعے عام شہریوں تک پہنچنا تھا۔ سیاسی پارٹیوں نے غلطی کی۔ دوسروں کی خیر ہے کہ وہ تھیں ہی ایسی، پیپلز پارٹی نے سیاسی مفاہمت کے نام پر غنیم کے رنگ ڈھنگ ہی اپنا لیے۔ اب بلاول بھٹو زرداری کے ذہن میں نیا طرزِ سیاست ہے تو اس کا راستہ مقامی حکومتوں کے نظام سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہی وہ گیدڑ سنگھی ہے جس سے سیاسی پارٹیاں عوام کے قریب ہوکر اپنی ساکھ بحال کرسکتی ہیں۔ کامیاب وہی ہوگا جو سیاست اور معیشت کا مقامیت کے نقطہ نظر سے دیکھے گا۔ ترقی نیچے سے اوپر جائیگا۔ اوپر سے صرف خسارہ ہی آئیگا۔ اگر بلاول آئین سے ہم آہنگ خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں تو نئی سیاست کے واقعی سرخیل بن جائیں گے۔ مقامی حکومتیں اب وہ کام کریں گی جو پہلے صوبائی یا پھر وفاقی حکومتیں کرتی تھیں، یعنی ضروریات زندگی اور انصاف کی فراہمی۔ وسائل اور اختیارات نچلی سطح پر جائیں گے تو ہی لوگوں کو جمہوریت کی افادیت کا پتہ چل جائیگا۔ معیشت کو اسکے پائوں پر کھڑا کرنے کی ابتدا مقامی سطح سے ہوسکتی ہے۔ اب صوبائیت میں ہی ذہن پھنسا رہے تو باقی دیوانے کا خواب ہی ہے۔