وہ پیڑجس کی چھائوں میںکٹی تھی عمر گائو ں میں میں چوم چوم کر تھک گیا مگر یہ دل بھرا نہیں اب تو وہ پیڑ بھی کٹ گئے۔صرف یادیں باقی۔دوست بھی عرب امارات اور یورپ کو چل دیئے۔جو موجود ہیں، وہ مہنگائی کے دور میں جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی ناکام کوشش میں مصروف ِعمل ۔ عظیم دانشور کا قول ہے :باپ دھوپ میں اور ماں چولہے پر جلتی ہے تو اولاد پلتی ہے۔دیہات کا موسم،جون جولائی کی گرمی ۔حبس میں جانوروں کے لیے چارہ کاٹنا۔لکڑیوں سے چولہا جلانا،بغیر پنکھے کے آگ کے سامنے بیٹھنا۔آگ جلانا،ہنڈیا اور روٹی پکانا۔واقعی مشکل ۔ والدین کی یاد ہر سانس میں آنی چاہیے۔جدید دور نے اسے ایک دن کے ساتھ نتھی کر دیا۔چلیں اسی بہانے اولڈ ہائوس کے دو رو دیوار کھل اٹھتے ہیں۔رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ماں کے پاؤں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔ باپ مزاجاََ سخت ہوتا ہے، جس بنا پر بچوں کی محبت کا رخ ماں کی جانب ہوتا ہے ۔باپ سائبان شفقت، جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ باپ کے ہوتے بیٹے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھاتو ایک ذمہ داری نے گھیر لیا۔ والد اولاد کی پرورش کے لیے اپنی جان تک لڑاتا۔ ساری زندگی اولاد کی راحت رسانی میں صرف کردیتا ۔ اپنی خواہشات کو دبا کر اولاد کو سکون پہنچاتاہے۔ آج فادر ڈے ہے۔شاید مغرب اپنی نسل نو کی مادر پدر آزاد خصلت کو بھانپ گیا تھاکہ یہ بگڑی ہوئی نسل ٹھوکریں مار مار کروالدین کو گھروں سے نکالیںگی ۔لہذا ایک دن مقرر کر دیں ۔والد صاحب کو بچھڑے ایک عشرے سے زیادہ برس بیت چکے۔ آج بھی اپنی ایک ایک سانس میں ان کی دعائوں کی خوشبوئیں سمیٹ سمیٹ کر دامن میں محفوظ کر رہا ہوں، ان کی تربیت کو اپنی خوش قسمتی تصور کرتا ہوں۔میں آج اس ہستی کی بے حد محبتوں اور لازوال شفقتوں کو کس طرح زیر قلم لائوں، جو موسم سرما کی یخ ٹھنڈی ہوائوں اور گرمی کی کڑی دھوپ میں میرے لیے محنت کرتی رہی۔ میں نے پہلا قدم زمین پر رکھا ،توان کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا۔انھوں نے انگلی پکڑی اور خود بچے بن گئے۔میں گرا،انھوں نے تھاما۔میں لڑکھڑایا،وہ آگے بڑھے ۔میں رویا ،انھوں نے چپ کرایا۔ میں نے ضد کی ،انھوں نے سمجھایا۔میں تھتلاکر بولا، انھوں نے بھی ویسا ہی بولنا شروع کر دیا۔ گویامیری خوشی کے آگے ان کی ہر خواہش دم توڑ تی گئی۔ آج وہ محبت، مجھ سے کوسوں دور جا چکی ۔ ایک مسلمان سال کے 364 دن اپنے باپ کو کیسے بھول سکتا ،اس تصور سے ہی شرم محسوس ہوتی ہے۔ ماں باپ کو گود کی بہاریں تو یاد نہیں،شائد فطرت کے پاس باقی ماندہ زندگی کے لیے ان سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہوتا۔اسی بنا پر وہ یادیںذہن سے محو کر دیتی ہے۔مگر گائوں کی گلیوں کی بہاریں یاد ہیں ۔وہ تنگ و پُرپیج مگر پیاری بھری گلیاں۔ان میں بے محابا بھاگنا۔مون سون کی بارشیں۔بڑی نہر سے نکل کر ایک نالہ ڈیرے کے قریب سے گزرتا،اس میں نہانا،جب تک نہاتے صرف آبِ رواں کا جامہ زیب تن رہتا۔دوستوں کے ساتھ کھیل کود۔گہیوں کے خوشے،حد نگاہ تک وسیع کھیت۔ڈیرہ گائوں سے مسافت پر تھا۔بجلی نایاب ،صرف شام کے وقت چند لمحوں کے لیے چراغ ٹمٹماتا،پھر تاحدِ نگاہ اندھیرا ہی اندھیرا۔اب دور دور تک قمقموں کے جال بچھ چکے۔مگر گھر والدین کے بغیر بے چراغ ۔ کھیتوں کھلیانوں کی وسعتیں شہروں کی کوچہ نووردیوں نے لے لیں ۔تنگ گلیوں میں ہجوم اُمڈ آئے ۔لیکن والدین کی کمی پوری نہ ہو سکی۔میں اس مجسمہ محبت کو کن الفاظ میں خراج تحسین پیش کروں؟ کیونکہ کہکشاں کی رنگینی‘ بلبل کے نغمے‘ زمین کی چمک، صبح کا نور اور آفتاب کی تمازت کو جمع کر کے رب نے اسے تخلیق کیا تھا۔ آج لوگ مریض کے سرہانے بیٹھ کر ،اس کا سر دبانے ،اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے، اسکے ماتھے پر بوسہ دینے یا پائینتی بیٹھ کر اس کے تلوے سہلانے کے بجائے کمرے کے باہر میز پر گلدستہ رکھ دینے یا کتاب پر دو چار جملے لکھ دینے کو معراج تہذیب خیال کرتے ہیں ۔وہ بھول گئے کہ جوہستی تمھیں زندگی دینے کا سبب بنی ،اس کی خدمت کیسے کرنی ہے۔ کدھر شریف کے قبرستان جاتے ہوئے ڈر سا لگتا تھا لیکن اب گائوں میں پہنچتے ہی پہلے قبرستان میں جا کر والدین کی قبر کے سرہانے اور پائینتی کھڑا ہو کر رب جلیل سے ان کے ساتھ شفقت کے معاملے کی دعا کرتا ہوں ۔میں جب والد صاحب کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا، تو میرے ذہن میں سوالات اٹھ رہے تھے ، میں صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح انکے جوابات تلاش کر رہا تھا۔ کیا کل بھی سورج اسی طرح گھر کے پس منظر میں ڈوب جائیگا۔ کیا کل بھی ایسی ہی اداس اور دکھ بھری شام ہو گئی؟ کیا کل بھی پرندے اسی طرح غول کی شکل میں درختوں کی شاخوں پر بیٹھیں گے؟ میرے بھائی سیف اللہ تارڑ ،شہباز احمد تارڑ ،نوید شہزاد اور حامد ناصرمیرے کندھے پر ہاتھ رکھے دیر تک مجھے گھر لیجانے کی ضد میںتھے۔ لیکن میں اس باپ کو تنہا چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھا، جس نے زندگی بھر مجھے تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ دنیا میں سبھی لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ،جو اپنے والدین کو بڑھاپے میں اولڈ ہائوس چھوڑ آئیں اور پھر خبر تک نہ لیں کہ سانس کی دوڑی کا رشتہ برقرار ہے یا ٹوٹ چکا ہے۔ اب تو گائوں کے قبرستان میں آدھا گھر سو رہا ہے، دادا، دادی، نانا، نانی، والد، والدہ، چاچا، بھابی اورکزن۔ہم نے بھی وہی جانا ہے ۔لیکن دنیا میں مگن ،اللہ نے رسی دراز کی ہوئی۔نہ جانے کب سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے گی۔ انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا اور سرطان اندر ہی اندر پھیلتا چلا جاتا ہے، گھٹن چاٹتا رہتا ہے اور عمر رائیگاں مٹھی میں بند ریت کی طرح سرکتی رہتی ہے۔ کیسی محرومی کہ ہم ماں باپ کی آغوش کو بھی بھلائے بیٹھے ہیں۔ میں سبھی دوستوں کے سامنے دست بدستہ گزارش کروں گا کہ اللہ کی اس عظیم ترین نعمت کی قدر کرو ۔ پرانی سوچوں، فکروں، پریشانیوں اور یادوں سے انہیں خلاصی دو، تاکہ ان کے لمحات آسودہ گزر سکیں۔والد صاحب دینی یا دنیاوی تعلیم زیادہ نہ رکھتے تھے مگر بزرگوں کی باتیں انھوں نے پلے باندھ رکھی تھیں ۔آپ ؒنے ایک سبق دیا تھا: دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر آگے بڑھنا ۔ امریکہ نے کتنی بچوں کے سروں سے باپوں کا سایہ چھینا ۔قلعہ جنگی، دشت لیلیٰ اور تورہ بورہ میں شہابی آنکھوں گلابی گالوں اور سنہری بالوں والے بچوں کے سر والد کے سائے سے محروم کیے۔دہکتی ریت پہ سلگتی لاشوں کے ڈھیر لگانے والے خونخوار بھیڑیوں نے کس سرزمین میں جنم لیا تھا۔وہاں بھی انسان دوست موجود ہیں لیکن درندے بھی بہت۔ باپ سراں دے تاج محمد تے ماواں ٹھڈیاں چھاواں