کنفیوشس نے کہا تھا: نظام حکومت اس طرح درست رہ سکتا ،کہ بادشاہ کو بادشاہی کی دشواری اور وزیر کو مشکلات وزارت کا احساس ہو۔ کاش! ہمیں بھی کوئی ایسا حکمران نصیب ہوتا مگر یہاں معاملہ دوسرا‘ ہر کوئی اپنی تجوریاں بھرنے میں مگن۔لوٹ مار کا پیسہ بھی دیار غیر میں منتقل۔ایک کرپٹ دوسرے کرپٹ کی،ایک خائن دوسرے خائن کی حمایت کرے گا ،تو کون سا انقلاب برآمد ہو گا۔عرب دوستوں سے لے کر آئی ایم ایف تک کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔چائنہ نے 2.3 ارب ڈالردئیے۔اس کی مجبوری ہے۔اربوں ڈالر اس کے دائو پر لگے ہوئے ہیں۔اس مشکل وقت میں وہ بھی مددکے لیے آگے نہ آتا،تومعاشی بدحالی نوشتہ دیوار تھی۔ڈالر خرگوش کی رفتار سے چل رہا،معیشت کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی۔جب حکمران طبقہ اربوں ڈالر بیرون ملک بنکوں میں محفوظ رکھے گا، ان کے بچے دیار غیر میںکاروبار کریں گے، تو بیرونی سرمایہ کار یہاں آئے گا نہ ہی کوئی ہماری مدد کرے گا۔ اگر یہ ایسی کروفر کے ساتھ حکومت کریں گے، تو نسل نو کو انہی دفاتر میں سجدہ سہو کرنا پڑے گا۔یاد رکھیں !غفلت اور لاپروائی نہ تو تاریخ معاف کرتی ہے نہ ہی شریعت۔یہاں تو تباہی ہی تباہی ۔ 13بڑی صنعتوں پر 10فیصد ٹیکس کے اعلان سے ہی سٹاک مارکیٹ کریش ہو گئی۔سرمایہ داروں کے 250ارب ایک جھٹکے میں ہی ڈوب گئے۔ دوسری جانب مہنگائی کا سیلاب ہے ،جو متوسط طبقے کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جا رہا۔ہر خاص و عام کی زبان پر یہ الفاظ ہیں :جس بے سروسامانی مگر جوش و جذبے سے عمران خاں نے حکومت کی، عوام کو ریلیف دیا،کرپٹ لوگوں کا مقابلہ کیا۔اس کی مثال صرف میدان کارزار میں ہی مل سکتی ہے۔ اب تو شاداب چہروں پر جھریاں نظر آ رہیں۔ دس فیصد سپر ٹیکس لگانے کا کیا فائدہ ہوا؟ سرمایہ دار تو پہلے ہی حکومت سے خائف ہے۔ ملٹن نے کہا تھا:مسرتیں وہیں پروان چڑھتی ہیں۔ جہاں اعتماد کے بیج کی آبیاری ہو۔یہاں نیچے سے اوپر تک بداعتمادی ہی بداعتمادی۔ جب حکمرانوں پر اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام ہو۔بچے بیرون ملک مقیم ہوں ،وہاں حکمرانوں پر اعتماد کیسے قائم ہو گا؟اس وقت جمہوریت سیاسی جماعتوں کے حرم کی کنیز کے سوا کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا پر یلغار جاری مگر یکطرفہ۔ دوسری جانب ایک مہیب سناٹا۔ آخر کسی کو تو فیصلہ کرنا ہو گا۔ بے یقینی کا خاتمہ تبھی ممکن۔ جن کی ذمہ داری ہے، وہ خاموش ہیں۔ اگر وہ آگے نہیں بڑھیں گے تو پھر کوئی اور آگے بڑھے گا۔مہنگائی کے باعث عوام کی چیخ و پکار سے دیواریں لرز رہیں مگر 11 جماعتی حکمران اتحاد چپ سادھے سن رہا۔اس قدر بے حسی کی مثال شاید تاریخ میں نہ ملے، سوائے بادشاہوں کے ، ان کا معاملہ الگ تھلگ ۔ کسی بھی چیزسے زیادہ انحصار حکمرانوں کی کارکردگی اور اہلیت پر ہوتا ہے۔یہاں دونوں نایاب۔ٹیکس اور بجٹ کے بعد یوں محسوس ہو رہا کہ وزیر خزانہ صرف گولیاں ٹافیاں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ 22کروڑ عوام کا بجٹ بنانے اور ریلیف دینے کی صلاحیت سے یکسر محروم۔انہیں تو اس کا بھی علم نہیں کہ بے روزگاری کے زخم شمار کئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ مہنگائی کی تیز رفتاری کیسے کنٹرول کی جا سکتی ہے؟پورا ملک ایک سنگین قسم کے سیاسی ہیجان سے گزر رہا لوگ آسودگی کی تلاش میں۔لیکن چار سو مایوسی کے گھپ اندھیرے۔حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ کپڑے اور انارج کی تجارت ہو تو معیشت پائوںپر کھڑی ہو گی۔ بنگلہ دیش تجارت سے ہی 45ارب ڈالر زرمبادلہ ذخائر کا مالک بنا۔بھارت کی بات دوسری ۔ وہ 600ارب ڈالر کا مالک۔لاکھ اختلافات کے باوجود مودی اور حسینہ واجد کو داد دینی پڑے گی۔کم از کم اپنے ملک سے تو وفادار ہیں ۔ان کے بچے اپنے ہی ملک میں کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس صرف 10ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر۔ اگر دوست ممالک اپنے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کر دیں تو صرف چار سے پانچ ارب ڈالر باقی۔ چوہدری بردران نے بھی عمر کے اس حصے میں گھوڑیاں علیحدہ علیحدہ کر لیں۔لالہ مادھو لال جوہر نے کہا تھا : جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو چوہدری شفاعت حسین نے بڑے دکھی دل سے کہا کہ بڑوں کی لڑائی بچوں میں آ گئی ہے ۔چوہدری وجاہت نے تو نئی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ۔انھوں نے شجاعت کے بیٹوں پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے باپ کو یرغمال بنا رکھا۔ساتھ ہی طارق چیمہ کو خاندان کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چوہدری شجاعت کے بیٹوں کی سیاست اب ختم ۔سالک حسین کو پہلے کوئی جانتا تھا نہ اب ۔مونس الٰہی کی سیاست تو جوبن پر ۔ وہ خود سیاسی لیڈر بن چکا۔منڈی بہائوالدین ،چکوال،سیالکوٹ اور گجرات کی سیاست کا سہرا اسی کے سر قائم ہے ۔سالک حسین کی چکوال سے جیت کا کریڈٹ بھی چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کو جاتا ہے ۔گجرات میں چوہدری وجاہت کا نام چلتا ہے ۔ان کے اپنے مخصوص حلقے ہیں،جہاں ان کے مقابلے میں کسی دوسرے کا الیکشن جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔جیسے منڈی بہائوالدین میں بھٹی برادران کے مقابلے میں الیکشن جیتنا جان جوکھوں کا کام ۔عمر کے اس حصے میں گجرات کے چوہدری خاندان میں اختلافات کا سب سے زیادہ نقصان اسی خاندان کو ہو گا۔مخالفین اس لڑائی پر نہ صرف خوش بلکہ بہت ہی خوش۔ خلیل جبران نے کہاتھا :محبت کے بغیر زندگی اس پیڑ کی طرح ہے جو پھل پھول سے محروم ہو۔ ہمیں نفرت کے خاتمے اور محبت کے فروغ کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ۔تاکہ یہ دنیا گل و گلزار بن سکے ۔ورنہ لوگوں کی نظر بد سے ایک ہنستا مسکراتا گھر یونہی ویران ہو جاتا ہے ۔ کنفیوشس نے تعلیم کے چار بنیادی نکات پیش کیے تھے۔ ادب،اخلاقی رویہ، اعمال، وفاداری و ذمہ داری۔۔۔۔۔عظیم چائنہ آج بھی ان چار ستونوں پر کھڑا ہے۔اور پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔کیا ہم نے کبھی اقبالؒ قائدؒ کے افکار و نظریات کو اپنانے کی کوشش کی ۔اقبال ؒ کی تعلیمات سے ترکوں اور ایرانیوں نے ایک مقام حاصل کیا ۔ہم نے صر ف ان شخصیات کے ایام پر تعطیلات کو کافی سمجھا۔اگر ہم بھی ان کے سچے پیروکار ہوتے تو آج دنیا میں معاشی تنہائی کا شکار ہوتے نہ ہی کشکول اٹھا کر یہ ذلت اٹھانی پڑتی ۔