زندگی دراصل موت کی امانت ہے اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اِس فانی اور عارضی دنیا کو چھوڑنا ہے موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا سب اقرار کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم میں سے بہت ہی کم خوش نصیب ایسے ہیں کہ جو مرنے سے پہلے موت کی تیاری کر لیتے ہیں۔ حضور اقدس ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ اِس دنیا میں اپنی خواہشات کو دفن کر دیں، دنیا چونکہ خواہشات سے بھری پڑی ہے، ابن آدم کی خواہشات بہت ہی وسیع ہیں ،حضور اقدس ؐ کا ایک اور فرمان مبارک ہے کہ ابن آدم کو ایک سونے کا پہاڑ بھی دے دیا جائے تو پھر وہ دوسرے کی خواہش کرے گا یہاں تک اُس کی خواہشات بڑھتی جائیں گی، واقعی وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ جن لوگوں کے سینوں کو اللہ تعالیٰ نے تمام قسم کی دنیاوی لالچ اور حسد سے پاک رکھا ہوا ہے چونکہ لالچ اور حسد کی وجہ سے ہی انسان کی بربادی شروع ہوتی ہے اور آج ہمارا معاشرہ سب سے زیادہ انہی دو روحانی بیماریوں کا شکار ہے ۔ افسوس کہ ہم لوگوں کو کوئی جسمانی تکلیف ہوتی ہے تو ہم فوراً اُس کا علاج شروع کر دیتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے لیکن جو ہمیں بہت زیادہ روحانی بیماریاں لگی ہوئی ہیں اُن کا علاج نہیں کرتے موت نے ایک دن ہمارا سب کچھ چھین لینا ہے۔ اِس دنیا میں ہمیں جو چیز سب سے زیادہ عزیز تر ہوتی ہے وہ اپنی اولاد ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو بھی ہم سے چھین لیتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔یہ دنیا کے رشتے اور اِن کی الفت یہ بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہوتی ہے جب ہمارا کوئی پیار ا عزیز یا دوست اِس فانی دنیا سے کوچ کرتا ہے تو ہمیں دُکھ ہوتا ہے ہم اُس کے انتقال پر روتے ہیں تو یہ رونا فطری عمل ہے۔ حضور اقدس ؐ کے فرزند حضرت ابراہیم جو حضرت ماریہ ؓ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے تو حضور اقدس ؐ اپنے اُس صاحبزادے کو بہت پیار کیا کرتے تھے مدینہ منورہ سے کچھ دور علاوی کے علاقہ میں آپ ؐ نے انہیں رضاعت کے لیے دیا ہوا تھا اور آپ ؐ کبھی وہاں تشریف لے جاتے اور اپنے صاحبزادے کو خوب پیار کرتے اور جب حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو آپ ؐ بہت زیادہ غمگین ہوئے اور آپؐ اپنے صاحبزادے کی وفات پر آپ کے آنسو نکل آئے۔ صحابہ کرام ؓ نے آپ سے پوچھا کہ یار سول اللہ آپ ؐ بھی روتے ہیں تو آپ ؐ نے فرمایا کہ یہاں میرا رونا تو فطرت ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں۔ گذشتہ دنوں ملک کے معروف عالم دین اور مبلغ مولانا طارق جمیل کو بھی اپنے جواں سال صاحبزادے عاصم جمیل کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا مولانا طارق جمیل ہمارے ملک اور ہماری قوم کا اثاثہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا محمد الیاس ؒ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے اُمت کی رہنمائی اور بہتری کے لیے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ کرنا اور حضور اقدس ؐ کی مبارک سنتوں کو معاشرے میں پھیلانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا طارق جمیل کو بڑا وسیع ظرف اور حوصلہ عطا کیا ہوا ہے اُن کی تبلیغ کا اپنا ایک انداز ہے وہ شوبز سے تعلق رکھنے والے ،کھیل کے میدانوں میں کرکٹ کھیلنے والوں کو بھی اپنے انتہائی خوبصورت تبلیغی انداز سے پکا اور سچا دین دار بنا چکے ہیں ۔مولانا طارق جمیل کا تعلق تلمبہ سے ہے گذشتہ دنوں اُن کے صاحبزادے عاصم جمیل پسٹل کی گولی چلنے سے انتقال کر گئے۔ عاصم جمیل جو کہ 13 برس کی عمر سے ڈپریشن کا شکار تھے ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دو ا کی ‘‘مولانا طارق جمیل نے اپنے اِس بیٹے کی صحت یابی کے لیے بہت علاج کرایا۔ دیسی حکیموں سے لے کر ڈاکٹروں تک کا علاج کرایا لیکن چونکہ ڈپریشن کا مرض ہی ایسا ہے کہ جو بہت کم ہی کنٹرول ہوتا ہے اوربعد میں کسی نے مشورہ دیا کہ عاصم کی شادی اگر کر دی جائے تو مرض کی شدت کم ہو جائے گی ڈپریشن کی بیماری چونکہ انسان کو تنہا کر دیتی ہے اور تنہائی اِن مریضوں کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا مولانا طارق جمیل نے اپنے صاحبزادے عاصم جمیل کی شادی خانیوال کی نیازی فیملی میں کر دی ۔پھر یہ شادی بھی دو سالوں بعد ٹوٹ گئی چونکہ عاصم جمیل پر شادی کے بعد ڈپریشن کے شدید دورے پڑنا شروع ہو گئے اور یوں شادی کا بندھن بھی ٹوٹ گیا۔ مولانا طارق جمیل اپنے اِس بیٹے کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے اور بیماری کی وجہ سے گھنٹوں اُس کے پاس بیٹھ کر ہنسی مذاق کی باتیں کیا کرتے تھے بقول مولانا طارق جمیل کہ میرا یہ بیٹا بہت ہی نیک صالح اور اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ محبت کرنے والا تھا۔ وہ غریبوں کا ہمدرد اور غریبوں کی مدد کرنے میں بڑی سخاوت والا تھا۔ تلمبہ رسیں آباد مولانا طارق جمیل کے آبائی گاؤں میں ایک نیم مجذوب پھرتا ہے کوئی بھی اُس محذوب کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں لیکن مولانا طارق جمیل کا بیٹا عاصم جمیل اُسکے ساتھ محبت کرتا اُسے اپنے ڈیرے پر لے جاتا اور کھانا کھلاتا یقیناً یہ سب باتیں ایسے بندے میں پائی جاتی ہیں کہ جس کے دل میں سب غریبوں اور بے آسرا لوگوں کی محبت ہوتی ہے۔ عاصم جمیل مخلوق خدا سے محبت کرنے والا تھا کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو عاصم جمیل کی یہ ادائیں پسند آجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والی ہے۔ مولانا طارق جمیل اور اُن کے اہل خانہ اِس وقت بہت زیادہ غم میں ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ بیٹے کی نماز جناز۔پڑھانا یقیناً بڑے دل گردے کا کام ہے مولانا طارق جمیل نے اپنے جواں سال بیٹے کی نماز جنازہ جب پڑھائی تو وہ بہت زیادہ آبدیدہ تھے ایک باپ کے لیے اِس سے بڑا امتحان اور آزمائش کیا ہو سکتی ہے کہ جواں سال بیٹے کی میت آگے رکھی ہو اور وہ جنازہ پڑھا رہا ہو لیکن تقدیر کا فیصلہ ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عاصم جمیل کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنائے اور مولانا طارق جمیل کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ (آمین)