گلین نے 2011ء میں Mercury Oneکے نام سے ایک نان پرافٹ تنظیم بنائی تھی جس کے فلاحی کاموں کے لیے وسائل عطیات اور حکومتی فنڈز سے نہیں بلکہ اس کے کاروباری ادارے کی آمدن سے پورے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے گلین نے 1791 کے لیبل سے کپڑوں کا برانڈ متعارف کروایا ۔ بیک نے جولائی 2014ء میں مرسری ون تنظیم کے پلیٹ فارم سے جنوبی امریکی سرحد پر موجود ہزاروں مہاجر بچوں کی مدد کا اعلان کیا جو اپنے والدین کے بغیر وہاں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ 2017ء میں بیک نے 10524 عیسائی مہاجرین جن کا تعلق عراق‘ شام‘ آسٹریلیا اور امریکہ سے تھا ,کی مدد کے لیے The Nazarene Fund قائم کیا۔ فنڈ کی ویب سائٹ کے مطابق 1646 خاندانوں کو داعش کے چنگل سے آزاد کروایا گیا جبکہ 45 ہزار افراد کی انسانی بنیادوں پر مدد کی۔ بیک نے Restoring Courage کے نام سے یروشلم میں 2011ء یہودیوں کے حق میں بھی ایک مہم چلائی تھی وہ نظریاتی عیسائیوں کے ہمیشہ حمایتی رہے ہیں اس کے علاوہ 2015ء میں عراق کے عیسائیوں کے حق میں 20 ہزار افراد کے ساتھ ریلی بھی نکال چکے ہیں۔ ٹرمپ کے حامی اور اوبامہ کے ہیلتھ کیئر بل کی مخالفت کرنے کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے قدامت پسندانہ سوچ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بیک کا پس منظر اس بات کا گواہ ہے کہ اچھائی برے سے برے انسان کو بھی تبدیل کرسکتی ہے،جیسا کہ قرآن پاک میں فرمان ربانی ہے کہ برائی کو اچھائی سے دور کرو۔وزیر اعظم عمران خان کا طرز عمل اور ایک غیر ملکی کا اعتراف اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان نا صرف ایک ذمہ دار ملک ہے بلکہ وہ عالمی بھائی چارے کا داعی اور اقوام عالم کی قیادت کرنے بھی اہل ہے۔ برائی کو کبھی برئی سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ کسی بھی مسلمان کے لئے سنت نبوی ﷺ مشعل راہ ہے آپﷺ کا کوڑا پھینکنے والی عورت کی تیمارداری کرنااور حسن سلوک سے پیش آنا مسلمانوں کے لئے بہترین مثال ہے ۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران بے یقینی اور بحرانی کیفیت میں پاکستان کے انسانی بنیادوں پر عالمی برادری سے تعاون کو جہاں دنیا بھر میں سراہا جارہا ہے وہاں امریکی ریڈیو براڈ کاسٹراور سیاسی مبصر گلین بیک نے بھی اعتراف کیا ہے کہ جب مزار شریف میں مختلف مذاہب اور ممالک کے ہزاروں افراد زندگی اور موت کی کشمکش میں عالمی برادری کی مدد کے منتظر تھے اس وقت پاکستان نے انسانی بنیادوں پر مدد کی۔ اس دوران دنیا کے مختلف رہنمائوں سے مدد کی اپیل کی۔ ہم نے دنیا میں موجود سول سوسائٹی کی تنظیموں کو ریلیف کے لیے پکارا مگر سب کی خاموشی نے ہماری بے بسی اور اذیت میں مزید اضافہ کیا۔ بہت سے عالمی رہنما اول تو ہماری درخواست پر ردعمل ہی نہیں دے رہے تھے اور جن کی طرف سے جواب موصول ہورہا تھا وہ ’’یس یا نو‘‘ میں ہی تھا۔ مایوسی کے ان اندھیروں میں ہم نے دنیا کے طاقت ور رہنمائوں کی بے حسی کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان سے انسانی بنیادوں پر مدد کی اپیل کی جنہوں نے نہ صرف ہماری اپیل پر تعاون کی یقین دہانی کروائی بلکہ رضاکارانہ طور پر بروقت عملی اقدامات بھی کئے۔ عمران خان نے ہماری مدد خالصتاً انسانی بنیادوں پر کی کیونکہ ہم مختلف مذاہب اور ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور شاید ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی محفوظ واپسی بطور وزیراعظم عمران خان کی ذمہ داری ہو۔ زندگی کی جنگ لڑنے والے زخمیوں کو محفوظ نہ نکالا جاتا تو ان کی موت یقینی تھی۔ عمران خان نے بغیر کسی سیاسی‘ مذہبی اور ثقافتی امتیاز کے صرف انسانی بنیادوں پر اس وقت مدد کی ،جب دنیا کے کسی بھی لیڈر یہاں تک کہ جن ممالک کے یہ شہری تھے ان کو بھی ان کی زندگیوں کی پروا نہیں تھی۔ ا عمران خان نے جس ہمدردانہ جذبہ سے ہماری مدد کی اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ جب ہم زندگی اور موت کے درمیان معلق تھے اس وقت عمران خان بروقت مداخلت کرتے ہوئے ہماری جانوں کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ عمران خان افغان حکام سے مذاکرات کئے اور مزار شریف سے اتحادی افواج کی مدد کرنے و الوں کو تین طیاروں میں سوار کر کے محفوظ مقام تک پہنچایا۔ یہ وزیراعظم عمران‘ افواج پاکستان اور پاکستان کے عوام کی مدد کا ہی ثمر ہے کہ طالبان نے تین طیاروں کو افغانستان چھوڑنے کی اجازت دی جن میں کاروباری افراد‘ امدادی تنظیموں کے کارکن اور نیٹو افواج کے مددگار شامل تھے۔ گلین بیک نے بتایا کہ دنیا اگلے چند روز میں ایسی بے شمار کہانیاں سنے گی اور یہ کہانیاں دنیا کے کئی ممالک میں بسنے والے وہ لوگ سنائیں گے جن کو عمران خان کی ان تھک محنت اور بے مثال انسانی جذبے کی وجہ سے زندگی ملی ہے۔ ان کہانیوں میں جان بچا کر گھر پہنچنے والوں کے عزیزوں کے تاثرات بھی ہوں گے۔ بیک نے دعویٰ کیا کہ زندہ بچ جانے والوں کی کثیر تعداد نے عمران کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں عالمی میڈیا کے اپنے عزائم اور ممالک کا اپنا ایجنڈا ہو سکتا ہے مگر ان ہزاروں افراد کا مقصد انسانی جانوں کو مقدم جاننے والے کی تکریم کرنا ہے اور اس کے احسانات کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ بیک نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے تعاون کا اعتراف کرے۔ ہم کسی قیمت پر امریکی قیادت کو پاکستان کے امریکیوں سے تعاون کو فراموش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گلین بیک نے عمران خان کی توصیف کی مہم کو احسانات کا اعتراف قرار اس لیے دیا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کو اس بات کا احساس ہو کہ ان کی اس مہم کے ردعمل میں عالمی میڈیا تنقید شروع کردے گا جس کا ذکر بیک نے اپنے ٹویٹ میں ’’عالمی میڈیا کے اپنے ایجنڈے‘‘ کے الفاظ استعمال کر کے اشارہ بھی کیا ہے گلین بیک کی اس نشریاتی مہم کو پاکستان کی لابنگ کہہ کر مسترد کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں کیونکہ گلین کا ماضی گواہ ہے کہ اس کی کبھی بھی پاکستان کے حوالے سے کوئی وابستگی نہیں رہی۔ گلین خود کو قدامت پسند عیسائی کہلوانا پسند کرتا رہا ہے۔