’’مجھے کیا چاہیے‘ عزت‘ شہرت ‘ دولت‘ طاقت‘ اگر یہ سب چیزیں مل جائیں تو کیا میں مطمئن اور پرسکون ہو جائوں گا۔نہیں شاید پھر بھی ایسا نہیں ہو گا کیونکہ میں نے پڑھا ہے کہ دنیا میں ایسے بہت سے لوگوں نے خود کشیاں کر لیں جو بہت مشہور تھے‘ جنہیں بہت عزت حاصل تھی اور وہ بہت دولت مند تھے۔تو پھر آدمی کو کیا چاہیے؟نہیں میں اب تک نہیں سمجھ سکا‘‘۔ اس نے اتنا کہا اور میز پر رکھے ہوئے گلاس کو اٹھایا اپنے لبوں سے لگایا اور غٹا غٹ سارا پانی پی گیا۔میں اسے غور سے دیکھتا رہا۔میں اسے پندرہ بیس برسوں سے جانتا تھا۔کل شام اس نے مجھے فون کیا اور کہا کہ وہ میرے پاس آنا چاہتا ہے اور ایک ضروری معاملے پہ مجھ سے مشورہ کرنا چاہتا ہے۔مجھے حیرت ہوئی اس لئے کہ ہمارے درمیان کبھی ایسے بے تکلفانہ مراسم نہیں رہے تھے کہ وہ کوئی مجھ سے مشورہ کرے۔ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔لیکن ایک ذرا فاصلے سے۔وہ کم گو تھا اور سلام و دعا اور خیریت خیر صلاّ سے زیادہ ہمارے دریان کبھی گفتگو آئے بڑی ہی نہیں تھی۔تو جب اس نے میرے پاس آنا چاہا تو میں نے ایک ذرا استعجاب کے ساتھ اسے آنے کی اجازت دے دی۔وہ ٹھیک وقت پر آ گیا اور پھر اس نے کہا کہ وہ ایک شدید جودی بحران میں مبتلا ہے۔میں نے اس سے پوچھا کہ بحران کی نوعیت کیا ہے۔وہ بولا مجھے نہیں معلوم کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟میں کیوں زندہ ہوں۔؟مجھے نہیں معلوم کہ میرے دل کا اطمینان کس چیز میں ہے؟میں نے اس سے کہا کہ تم اپنے جینے کا جواز جاننا چاہتے ہو؟کیا یہ کافی نہیں ہے کہ تم ہو او جب تم ہو تو پھر اپنے ہونے کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کر لو۔اس نے کہا میں ایک عرصے سے اسی ہونے کا جواز اس کی وجہ ڈھونڈ رہا ہوں اور اسے تلاش کرنے میں ناکام ہوں۔اور اسی لئے میں شدید فرسٹریشن کا شکار ہوں۔مجھے زندگی بے معنی اور بے مقصد نظر آتی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔نوکری چاکری‘کھانا پینا‘ پہننا اور اوڑھنا اور گھومنا پھرنا‘ ان میں تو دل کا سکون نہیں ہے۔ یہ تو سبھی کرتے ہیں۔ میں نے کہا: ؟؟دیکھو اگر تم دل کا سکون چاہتے ہو تو دل کا سکون صرف خدا کی یاد میں چھپا ہے۔تم خدا کو یاد کرو۔شاید اس کی یاد تمہارے دل کو سکون بخش دے‘‘ ’’خدا کی یاد؟‘‘ اس نے اچھنبے سے کہا : ’’میں نے تو خدا کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں اور میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اسے کیسے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘ تم نے کبھی خدا کے بارے میں بے شک نہ سوچا ہو لیکن وہ تمہارے حال سے بے خبر نہیں ہے۔کیا عجب کہ وہ تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہو۔یہ کیفیت کسی اور کی کیوں نہیں ہے۔تمہاری ہی کیوں ہے؟ یہ سوالات جو تمہیں بے چین کر رہے ہیں’ یہ صرف تمہارے ہی اندر کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟یقینا وہ چاہتا ہے کہ تم اس کی طرف توجہ کرو۔جب تم اس کی طرف متوجہ ہو گے تو وہ تمہارے دل کو پرسکون کر دے گا۔‘‘ ’’اچھا‘‘ اس نے ’’اچھا‘‘ کو کھینچ کر کہا اور اس کی آنکھیں گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔تھوڑی دیر بعد اس نے کہا ’’دیکھیے میری عمر اب پینتالیس سال ہو رہی ہے اتنے برسوں میں کبھی میں نے خدا کے بارے میں نہیں سوچا… ’’تم نے ہی نہیں‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ دی:’’ہم میں سے اکثر لوگوں کا معاملہ یہی ہے کہ وہ اپنی تنہائی میں کبھی خدا کے بارے میں نہیں سوچتے۔وہ زندگی کو گزارتے چلے جاتے ہیں۔ جو نعمتیں انہیں میسر ہوتی ہیں وہ ان سے اپنے لمحات کو پرمسرت بناتے ہیں لیکن وہ کبھی ٹھہر کر ٹھٹھک کر یہ نہیں سوچتے کہ یہ نعمتیں جس قادر مطلق ہستی نے عطا کی ہیں۔وہ اس کا شکر ادا کر دیں۔کبھی آسمان کی طرف دیکھ کر اتنا ہی کہہ دیں: ’’تھینک یو مائی لارڈ‘ تھینکس اے لاٹ‘‘ ’’ہاں یہ تو ہے۔میں نے بھی کبھی ایسا نہیں کیا‘‘ وہ بولا۔اس کے چہرے پہ ایک تعجب سا تھا۔ایک ایسا استعجاب جو آدمی کو مسحور کر دیتا ہے۔ اور اگر… ’’اس نے کہا؎ ’’کبھی مجھے خدا مل جائے اور مجھ سے پوچھ لے کہ پچھلے چالیس برسوں میں تم نے ایک بار بھی مجھے یاد نہیں کیا۔کبھی میرے بارے میں سوچا تک نہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گا۔‘‘ ’’نہیں وہ ایسا کبھی نہیں پوچھے گا۔‘‘ میں نے اسے اطمینان دلایا: ’’اس کی طرف جو بھی آتا ہے وہ اسے کبھی شرمندہ نہیں کرتا۔وہ بہت مہربان اور خلیق ہے۔وہ معاف کر دینے والا اور پیار کرنے والا ہے۔تم اطمینان رکھو اس کے لئے اتنا ہی بہت کافی ہے کہ تم نے اس کی طرف رجوع کیا۔‘‘ ’’یہ تو اور زیادہ شرمندہ کر دینے والی بات ہے۔‘‘ اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔میں نے تو کبھی نماز بھی نہیں پڑھی۔کبھی مسجد بھی نہیں گیا۔میرا کیس تو بہت ہی خراب ہے‘‘ وہ کچھ ڈسٹرب سا تھا۔ اس کی فکر نہ کرو میں نے اسے تسلی دی۔ تمہارے گناہ اگر سمندر کے جھاگ جتنے بھی ہوں گے تو وہ تمہیں معاف کر دے گا۔انسان کو اس نے معاف کرنے ہی کے لئے خلق کیا ہے۔اگر وہ معافی مانگنے پہ آمادہ ہو تو۔‘‘ ’’نہیں نہیں۔معافی مانگنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے تابی سے کہا۔معافی تو میں مانگ لوں گا لیکن میں اس سے ایک بات ضرور پوچھوں گا ۔؟‘‘ کیا پوچھو گے؟ میں نے سوال کیا۔یہی کہ اس نے مجھے پیدا کیوں کیا؟اور پیدا کیا ہی تھا کہ اس نے مجھ کو اپنے آپ سے دور کیوں رکھا؟‘‘اور اگر وہ تم سے پلٹ کر پوچھ لے کہ تم نے اسے تلاش کیوں نہ کیا کبھی اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت کیوں نہ کی کہ وہ کون ہے جس نے مجھے خلق کیا‘اس زندگی اور اس کائنات کو خلق کیا یہ ایک سادہ سا سوال کیوں نہ ذہن میں ابھرا۔تو اصل قصور تو تمہارا ہے لیکن پھر بھی اس نے تم کو اکیلا نہیں چھوڑا اور تمہارے دل و دماغ کو بے چین کر کے اپنی طرف متوجہ کر ہی لیا۔‘‘ ہاں یہ تو ہے اس نے اقرار میں سر ہلایا۔اچھا میں چلتا ہوں‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔میں اسے دروازے تک چھوڑنے گیا ۔الوداع ہوتے ہوئے اس نے اتنا وقت دینے پر میرا شکریہ ادا کیا اس کے جانے کے بعد میں نے اپنے اندر ایک بے چینی سی محسوس کی۔میں سوچنے لگا کہ کیا میں نے اسے صحیح مشورہ دیا بھی ہے یا نہیں۔کیا وہ خدا کے بارے میں سوچے گا کیا وہ خدا کو یاد کرے گا؟ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو میں گنہگار تو نہیں ہوں گا۔کیا خدا اس کا محتاج ہے کہ اس کا مقدمہ اس کے بندوں کے سامنے لڑا جائے۔جس نے زندگی اور بندوں کو خلق کیا ہے وہ ان کی ہدایت کا بھی بندوبست کر دیتا ہے کیا خدا کو ہم جیسے بندوں کی وکالت کی ضرورت ہے ان ہی خیالات میں غلطاںمجھے نیند آ گئی۔آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔مجھے بہت گہری نیند آ گئی تھی۔ابھی میں بستر ہی پہ تھا کہ ایک دوست کا فون آ گیا۔اس نے عجیب دلخراش خبر سنائی۔وہ جو پچھلی رات میرے پاس آیا تھا، اسے خدا نے اپنے پاس بلا لیا تھا۔