روس یوکرین تنازع نے عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، اسی طرح اسرائیل اورحماس کے درمیان جاری تنازع عالمی اقتصادیات کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جارہاہے۔تنازعات کے طول پکڑنے سے توانائی کے بحران اور مہنگائی کی لہر کا سنگین خطرہ پیدا ہو گیاہے۔حکومت پاکستان نے بھی معاملے کی سنگین صورت حال کے باعث پیٹرولیم کے ذخائر بڑھانے کا عندیہ دیا ہے ۔عالمی اداروں کی رپورٹس بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ تنازعات عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بنتے جا رہے ہیں۔یہ جنگیں توانائی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے، بے یقینی میں اضافے اور معاشی نمو میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں تاہم اب تک کی جنگیں تنازعات دنیا بھر میں ایندھن اور اجناس کے بحران نے عالمی پیمانے پر شدید مہنگائی میں اضافہ کرچکے ہیں،بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گراں قدر اضافے کا بوجھ دنیا کے ہر ملک کے لئے درد سر بنتا جا رہا ہے اور عوام مہنگائی اور بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اپنے اپنے ممالک میں شدید احتجاجی مظاہرے کرکے اپنا ریکارڈ درج کرارہے ہیں ، لیکن جنگ کے خاتمے کے لئے ایسی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی کہ عالمی امن کی راہ کو موقع ملتا، بلکہ جنگ بندی کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کا واضح مطلب انسانیت کے قتل کی اجازت دینا ہے۔ اس وقت، مشرق وسطی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع بھی عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ تنازع طول پکڑتا ہے، تو اس سے دنیا ایک مرتبہ پھر توانائی کے بحران میں آسکتی ہے اور دنیا بھر میں مہنگائی کی لہر پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ اسرائیل اور حماس دونوں ہی خطے میں اہم توانائی پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ اسرائیل دنیا کا تیسرا بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے جبکہ حماس اپنے علاقے میں قدرتی گیس پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ تنازع طویل عرصے تک جاری رہتا ہے، تو اس سے توانائی کی پیداوار اور سپلائی میں خلل پڑ سکتا ہے۔عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع سے توانائی کے بحران کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ تنازع جلد ختم نہیں ہوتا تو اس سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے عالمی معاشی نمو میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی ایک رپورٹ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع سے توانائی کے بحران کے خطرے کا حوالہ دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ تنازع جاری رہتا ہے، تو اس سے عالمی توانائی کی سپلائی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔توانائی کے بحران کے علاوہ، اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع سے مہنگائی کی لہر کا بھی خطرہ ہے۔ یہ تنازع بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری میں بے یقینی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عالمی خوراک پروگرام (WFP) نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع سے عالمی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تنازع اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، جس سے دنیا بھر میں لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے باعث، عالمی پیٹرولیم پیداوار میں کمی آئی تھی۔ روس عالمی سطح پر سب سے بڑا تیل اور گیس برآمد کنندہ ہے۔ حملے کے بعد، روس نے اپنی تیل اور گیس کی برآمدات میں کمی کی ۔ اس سے عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کم پیداوار کا سلسلہ مہنگائی کے بحران بڑھا۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے معاشی نمو میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔کم پیداوار سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک وہ ہیں جو تیل اور گیس کے درآمدات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ کرونا وبا کے عالمی اقتصادات پر پڑنے والے اثرات نے دنیا کو ایک ایسے بحران کا شکار کیا کہ جس کے مضمرات کئی دہائیوں تک موجود رہیں گے ، عالمی وبا کی خاتمے کی کوششوں میں روس یوکرین تنازع ترقی پذیر و ترقی یافتہ ممالک کو کچھ ایسی لپیٹ میں لیا کہ مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ، ترقی یافتہ میں عوام کو سڑکوں پر لانے پر مجبور کیا ، افراتفری نے دنیا کو جیسے بدل دیا ۔ رہی سہی کسر اسرائیل مشرق وسطیٰ نے پوری کردی اور شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ دنیا ایک نئے اقتصادی بحران کا شکار ہو سکتی ہے ۔ غزہ تنازع کا خاتمہ اور جنگ بندی نہیں ہوتی تو سپلائی چین متاثر ہونے اور پیٹرولیم مصنوعات کی کم پیدوار مہنگائی کا سونامی لے کر آیا جو غریب ، ترقی پذیر ممالک کے عوام کو ہی نہیں بلکہ عالی قوتوں کا بھی شیرازہ بکھر سکتا ہے۔دنیا اس وقت جنگ بندی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی اور اس کے نتائج انہیں بھی بہت جلد بھگتنے ہوں گے ۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے تباہ کن اثرات جہاں معصوم بچوں ، خواتین اور برزگوں پر اثر انداز ہوں گے وہیں تباہ کن انفرااسٹرکچر سے ایک ایسی عمارت ابھر سکتی ہے جس کے نظریات اور جنگ کی تباہ کاریوں سے انتقام کی بلندی کو کوئی گرا نہیں سکے گا ۔ یہ ایک قوم ایک نسل کے خلاف جنگ ہے ، یہ دفاع کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کی نسل کشی کی لئے جا رہی ہے تو عالمی برادری کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ امن کی طرٖف ہیں جنگ کی طرف ، جو انہیں پتھروں کے دور میں واپس لے جاسکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭