ہندوستان میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف ہونے والے مظالم کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جیسی پرتشدد نظریات رکھنے والی دائیں بازو کی جماعت نے ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی ہے،اقلیتیوں کے خلاف مظالم اور ان کے مذہبی حقوق کی پامالی کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہنوستان بھر میں غیر ہندوؤں باالخصوص مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کے تاریخی ورثہ خصوصی طور پر صدیوں پرانی مساجد کو زبردستی مسمار کرنا معمول بن چکا ہے کیونکہ بی جے پی اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے اور آئندہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے لیے اقلیت باالخصوص مسلمان کش اقدامات میں زیادہ تیزی لارہی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 جنوری 2024ء کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر نئے تعمیر ہونے والے ہندو مندر "رام مندر" کا افتتاح کیا ہے۔ 50 میٹر اونچا مندر اس زمین پر بنایا گیا ہے جہاں 1992ء میں ہندو گروپوں کے ہاتھوں مسمار ہونے سے قبل صدیوں تک بابری مسجد کے نام سے ایک قدیم اور تاریخی مسجد موجود رہی ہے۔ بابری مسجد کے انہدام نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا، جس میں 2,000 سے زیادہ جانیں گئیں۔ جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ مسجد کے انہدام کے بعد زمین کی ملکیت کے بارے میں ایک طویل قانونی جنگ چھڑ گئی البتہ 2019ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ہندوؤں کو اس جگہ پر مندر بنانے کا حق حاصل ہے۔ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے حکام کے مطابق اخونجی نامی یہ مسجد جسے1970ء کی دہائی میں دستاویزات میں گرین بیلٹ کے طور پر درج کیا گیا تھا اور1994ء میں اسے ایزرو فاریسٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا جہاں کسی بھی قسم کی نئی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مسجد کا تذکرہ 1920ء میں ’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ (اے ایس آئی) کے ایک اہم سروے میں کیا گیا ہے، جس میں دہلی کی 3000 عمارتوں اور دیگر ڈھانچوں کی فہرست دی گئی ہے اور اس فہرست کی جلد تین میں صفحہ 83 اور 84 پر بالترتیب پرانی دہلی کی عیدگاہ اور مسجد اخونجی کا ذکر ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسجد کی مرمت 1270 ہجری یعنی سنہ 1853-54 کے آس پاس ہوئی تھی۔ اگرچہ گزشتہ سال ستمبر میں دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مہروالی آرکیالوجیکل پارک اور گردونواح میں واقع وقف کی مساجد اور عمارتوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا اور اب اس مسجد کو مسمارکرنے کا مطلب اس تاریخی ورثے سے ہندوستان کے تعلق کو توڑنا ہے اور اسے صرف انڈیا کے مسلمانوں کا ورثہ سمجھتے ہوئے صفحہ ہستی سے مٹادینا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارتی جنتا پارٹی کے اِقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ہندوستان میں مسلم دشمنی کا رجحان تیزی سے بڑھنا شروع ہوگیا تھا اور یہ سب کچھ اِیک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے جسے مودی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اَقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی پشت پناہی کے سلسسلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بے اِعتنائی کی ایک اور مثال گزشتہ برس ہندوستان کی ریاست مانی پور میں ہونے والے دلخراش واقعات کی ہے جہاں حکمران جماعت بی جے پی نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ وہاں کے اکثریتی آبادی کے حامل میتئی قبیلے کی طرف سے کوکی قبیلے کی عورتوں کے ساتھ کی جانیوالی دل دہلا دینے والی زیادتیوں کا ذمہ دار مانی پور ریاست کی حکمران جماعت بی جے پی کو ٹھہرایا گیا کیونکہ میتئی قبیلے کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقامی قیادت کی براہِ راست پشت پناہی حاصل تھی۔ اِسی طرح کرناٹکا میں بی جے پی کی حکومت کی طرف سے جنوری 2022 میں سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے کا فیصلہ ہندوستان میں مسلمانوں سے اِمتیازی سلوک کی مثال ہے جبکہ کرناٹکا کی ہائی کورٹ نے بھی حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا۔ بھارت میں، جہاں مسلمان ملک کی 1.4 بلین آبادی کا 14 فیصد ہیں، حجاب کو تاریخی طور پر عوامی سطح پر نہ تو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی محدود کیا گیا ہے۔ خواتین کا سر پر اسکارف پہننا پورے ملک میں عام ہے۔ بھارت کے قومی چارٹر میں مذہبی آزادی کو سیکولر ریاست کی بنیاد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ قیادت اِنتہا پسند ہندو قوم پرستی کے خیالات کی حامل اور پرچارک ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی نسل کش پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مثال کے طور پر، حجاب پہننا یا داڑھی رکھنا ناشائستہ قرار دیا جا رہا ہے اور بنیاد پرست ہندو، مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی اقلیت کش پالیسیاں کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہیں گشتہ سال 18 جون کو کینیڈا کے شہر وینکوور کے ایک مضافاتی علاقے میں سکھ رہنماء نجار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ وینکوور کینیڈا میں سکھوں کی سب سے بڑی آبادی کا مسکن ہے اور سکھ رہنماء نجار ایک آزاد سکھ ریاست کے قیام کی حمایت کرتے تھے جبکہ بھارت نجار پر بھارت میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے، جس کی نجار نے ہمیشہ تردید کی۔ بھارت کا ہمسایہ اور براہِ راست متاثر ہونے کی بناء پر پاکستان ایک عرصے سے عالمی برادری کی توجہ ہندوستان کے اِس طرزِعمل کی طرف مبذول کراتا رہا ہے کہ ہندوستان ہمسایہ ممالک باالخصوص پاکستان کے اندرونی معاملات میں نہ صرف دخل اندازی کرتا ہے بلکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھی براہِ راست ملوث ہے۔ اِس ضمن میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بلوچستان میں گرفتاری پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی براہ راست مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل نے ہندوستان کے دوغلے پن کو مزید آشکار کردیا ہے۔ اب عالمی برادری باالخصوص اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں باالخصوص بھارت کی پاکستان سمیت دوسرے ملکوں میں مداخلت اور دہشت گرد عناصر کی حمایت کی پالیسیوں کا نوٹس لے تاکہ دنیا میں امن کے قیام کے اقوامِ متحدہ کے وعدہ کی تکمیل ہوسکے اور بھارت میں رہنے والی دلت، آدیواسی اور مسلمانوں جیسی مذہبی اقلیتیں بھارتی حکومت کے ظلم وستم سے بچ سکیں۔