ترکیہ میں گزشتہ روز 28 مئی کو صدر کے اِنتخاب کے لیے رَن آف الیکشن ہوا ہے، جس میں تقریباً چھ کروڑ چالیس لاکھ سے زائد ووٹرز اَپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اگلے پانچ سالوں کے لیے ترکیہ کے صدر کا چناؤ کریں گے۔ ترکی کے الیکشن کے رولز کے مطابق صدارت جیتنے کے لیے، پہلے راؤنڈ میں ایک امیدوار کے لیے 50% سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی امیدوار نصف سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان رن آف ہوتا ہے جس میں جو امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ اِس سے پہلے 14 مئی کو ہونے والے صدارتی اِنتخابات میں موجودہ صدر طیب اردوان نے 49.5 فیصد ووٹ حاصل کیے اور حزب اختلاف کے اہم اتحاد کے امیدوار کمال کلیک دار اوغلو نے 44.8 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ تیسرے امیدوار اے ٹی اے اتحاد کے سینان اوگن، جو انتخابات سے قبل ترک عوام کے لیے غیر مانوس شخصیت تھے، نے انتخابات میں 5.2 فیصد ووٹ لیے ہیں۔ ترکیہ کے اِنتخابات پر لکھے گئے اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ ترکیہ کے موجودہ صدر طیب اردوان صدارت کی تیسری مدت کے لیے اِنتخاب لڑرہے ہیں اور اِس مرتبہ حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیک دار اوگلو سے انکا کانٹے دار مقابلہ ہے۔ کلیک دار اوگلونے ترکیہ کے موجودہ صدر اردگان کی صدر کی حیثیت سے میراث کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم اے ٹی اے اتحاد کے سنان اوگن (جنہوں نے نے صدارتی انتخابات کے گزشتہ مرحلے میں 5.2 فیصد ووٹ لیے ہیں) نے موجودہ صدر رجب طیب اردوان کی حمایت کا اِعلان کیا ہے۔ ترک عوام اپنا اگلا صدر کسے منتخب کرتے ہیں؟ اِس کالم کے چھپنے تک تو یہ معلوم ہوچکا ہوگا۔ البتہ اِس کالم میں اِس بات کا جائزہ لیا جائیگا کہ موجودہ صدر طیب اردوان یا حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیک دار اوگلو کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلی واقع ہوگی؟ دوسرے اَلفاظ میں ترکیہ کی خارجہ پالیسی کے محاذ پر دونوں امیدواروں کی اَپروچ میں کیا فرق ہے؟ کسی بھی ملک کے عام اِنتخابات میں باالخصوص جمہوریت پسند معاشروں میں عمومی طور پر خارجہ پالیسی اِنتخابی مہم کا کم ہی عنصر ہوتی ہے سوائے اَمریکہ جیسی عالمی طاقت کے صدارتی اِنتخابات کی مہم کے جہاں صدارتی امیدوار خارجہ پالیسی کے اِیشوز پر اپنی اِنتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر صدر ٹرمپ نے2016 کے صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران ‘‘make America great again‘‘ کا نعرہ لگایا تھا ،جس کا یقینی طور پر تعلق اَمریکہ کی معاشی طاقت میں اِضافے سے تھا جس کے لیے اَفغانستان میں امریکی افواج پر اٹھنے والے اَخراجات میں کمی لانا ضروری تھا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کا ہر ووٹر کسی اِیشو یا عنصر سے متاثر ہوکر اَپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرتا۔ پارٹی منشور (جس میں داخلی اِیشوز زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں) کے علاوہ امیدوار کی ذاتی خصوصیات سمیت کرشماتی شخصیت کا عنصر اہم کردار ادا کرتا ہے باالخصوص بلاواسطہ ہونے والے صدارتی اِنتخابات میں جیسا کہ ترکیہ کے صدارتی اِنتخابات۔ ترکیہ کے حالیہ صدارتی اِنتخابات کے امیدواروں کی اِنتخابی مہم، بیانات اور پارٹی منشور پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ اِنتخابات میں امیگریشن ایک مرکزی مسئلہ رہا ہے۔ اس مہم میں اپوزیشن کے متعدد سیاست دانوں کو پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو نکالنے کا عہد کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جبکہ حکومت نے شامیوں کی "رضاکارانہ طور پر" وطن واپسی کو آگے بڑھانے کے اپنے منصوبوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ترکیہ نے 3.7 ملین پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ کورونا جیسی عالمی وبا کی وجہ سے عالمی کساد بازاری، انتخابات سے پہلے کے سال میں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈوبتے لیرا اور رہائشی اَخراجات میں اِضافے سمیت معاشی بحران کی موجودگی میں مہاجرین اور تارکینِ وطن، خاص طور پر شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے شامی مہاجرین کی ترکیہ میں موجودگی کی وجہ سے ترکیہ کی معیشت پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور اِس تناظر میں شامی تارکینِ وطن حالیہ صدارتی اِنتخابات کا ایک اہم اِیشو ہے۔ کِلِک دار اوگلو، جنھیں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے وسیع اتحاد کی حمایت حاصل ہے، تارکینِ وطن کی ملک بدری کے حوالے سے ایک واضح مؤقف رکھتے ہیں اور شامی مہاجرین کی ترکیہ سے زبردستی ملک بدری کی پالیسی کے حامی ہیں، جس میں 14 مئی کے اِنتخابی مرحلے کے بعد مزید سختی آئی ہے۔ قوم پرست ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بظاہر کوشش میں کِلِک دار اوگلو نے پہلے انتخابات کے بعد پناہ گزینوں کے خلاف بیان بازی میں اضافہ کیا ہے۔مسٹر اوگلو نے شامی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے انتخابات کے پہلے مرحلے سے قبل دو سال میں ترکی میں پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا وعدہ کیا تھا، جسے اَب اِیک سال تک کم کر دیا گیا ہے۔ اِس کے برعکس صدر طیب اردوان کی حکومت روسی ثالثی کی کوششوں کے ذریعے شام اور ترکی کے درمیان بات چیت کی بدولت شامی پناہ گزینوں کی 'رضاکارانہ وطن واپسی' کی پالیسی کی حامی ہے۔ صدر اردوان نے کوئی مخصوص ٹائم لائن دئیے بغیر، ترکی کے زیر کنٹرول شمالی شام میں ہاؤسنگ پراجیکٹس پر عمل درآمد کے بعد تقریباً 10 لاکھ شامی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔عالمی امور کے ماہرین کے نزدیک اگر اردوان کی خارجہ پالیسی انکی شخصیت کے گرد گھومتی تھی، تو کلیک دار اوگلو کی حکومت کی صورت میں خارجہ پالیسی سازی کا انداز بدل جائے گا کیونکہ فی الحال خارجہ پالیسی مکمل طور پر ذاتی انداز سے چلائی جاتی ہے۔ کلیک دار اوگلو کے ترکیہ کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں جہاں بنیادی تبدیلی متوقع ہے وہ ترکیہ کے مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اوگلو کی قیادت میں ترکیہ کی حکومت مغرب میں اپنے روایتی شراکت داروں، یعنی یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ ترکیہ کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔ اَگرچہ 2002 کے بعد، AK پارٹی کے اقتدار میں آنے والے پہلے عشرے میں بھی ترکی کے لیے خارجہ پالیسی میں ایک عمومی مغرب نواز نقطہ نظر پہلے سے طے شدہ رہا ہے مگر صدر اردوان کی قیادت میں ترکیہ کا مغرب سے ’’alculated distance‘‘ انقرہ میں پائے جانے والی اِس سوچ کا نتیجہ ہے کہ ترکیہ کے اتحادیوں نے ترکیہ کے خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ دوسری طرف اردگان نے اپنی ترجیحات کو تبدیل کر تے ہوئے مسلم دنیا کو زیادہ اہمیت دی ہے، جہاں ترکی نئے اتحاد، نئے تعلقات استوار کرنے، اور اپنے اثر و رسوخ کو تیزی سے بڑھا کر خطے کا ایک بڑا کھلاڑی بننے کے قابل ہوا ہے۔