باہمی تعلقات میں برسوں کے کھچاؤ کے بعد ترکیہ اور مصر تعلقات کی دوبارہ بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ترکی اور مصر کے مابین سفارتی تعلقات 2013ء میں اس وقت منقطع ہو گئے، جب مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے ایک فوجی بغاوت کی قیادت کی، جس نے جمہوری طور پر منتخب رہنما محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اَب جب ترکیہ اور مصر مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کے قریب ہیں تو بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی سفارتی تعلقات کی بحالی کے اثرات پورے خطے پر پڑ سکتے ہیں۔ مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے انقرہ میں اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کی ہے، جب کہ دونوں ممالک تقریباً ایک دہائی کے بعد مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔ 13 اپریل جمعرات کا دورہ شوکری کا اس سال ترکیہ کا دوسرا دورہ ہے، جب کہ ترک وزیرِ خارجہ چاوش اوغلو نے مارچ میں مصر کا بھی دورہ کیا تھا۔ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، Cavusoglu نے کہا کہ دونوں ممالک "سفارتی تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح تک بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں"، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفیروں کی تقرری جلد ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ مصر اور ترکیہ نے دوطرفہ تعلقات کی بحالی پر بات چیت کے لیے مئی 2021 اور ستمبر میں اِبتدائی مذاکرات کیے، کیونکہ ایک طرف ترکی کے اتحادی قطر جبکہ دوسری طرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے درمیان خلیجی بحران کے خاتمے کے بعد علاقائی اتحاد بدل رہے ہیں۔ 2022 میں مصری صدر السیسی اور صدر طیب اردگان پہلی بار دوحہ میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے آغاز کے موقع پر ملے اور مصافحہ کیا۔ ترکیہ اور مصر کے درمیان تنازعات کی نوعیت کیا ہے ؟ امن کی موجودہ کوششوں کو کن چیلنجوں کا سامنا ہے؟ اور خطے کے لیے اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں؟2013 میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں مرسی کی معزولی تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی کا باعث بنی۔ سفارتی تعلقات کو چارج ڈی افیئرز کی سطح تک کم کر دیا گیا ہے کیونکہ اردگان نے اس وقت "ناقابل قبول بغاوت" کے رہنما اور مصر کے مستقبل کے صدر عبدالفتاح السیسی کو "ناجائز ظالم" قرار دیا۔ نومبر 2013 میں، قاہرہ نے ترکی کے سفیر کو "نا پسندیدہ شخصیت " قرار دیا۔ تب سے، ترکیہ نے مصری مخالفین کو پناہ فراہم کی ہے، جن میں سے اخوان المسلمون کے بہت سے رہنما ہیں جنہیں قاہرہ "دہشت گرد" سمجھتا ہے جبکہ ترکیہ نے انہیں سیٹلائٹ ٹیلی ویژن چینل چلانے کی اجازت دی ہے، جو مصری صدر کے خلاف کھل کر بات کرتے ہیں۔ اِس طرح ترکیہ بتدریج مصری جلاوطنوں، بشمول اخوان المسلمون کے سینیئر رہنماؤں، اور حزب اختلاف کے ذرائع ابلاغ کا مرکز بن گیا۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے جون 2017 میں دوحہ کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد انقرہ کی اپنے علاقائی اتحادی قطر کی حمایت نے علاقائی تقسیم کو مزید واضح کر دیا۔ اس وقت، چند دیگر ممالک کی حمایت سے چار عرب اتحادیوں نے قطر پر سمندری، زمینی اور فضائی ناکہ بندی عائد کر دی تھی، اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ "دہشت گردی" کی حمایت کرتا ہے اور وہ ایران کے بہت قریب ہے۔ خلیج کا تین سال سے زیادہ کا بحران جنوری 2021 میں حل ہو گیا جب ناکہ بندی کرنے والے ممالک نے قطر کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں ناکہ بندی ختم کر دی گئی اور تعلقات معمول پر آگئے۔ اِس علاقائی سیاسی گروپ بندی کے علاوہ اب ترکیہ اور مصر، لیبیا کے مسئلے کے حل پر بھی متضاد خیالات کے حامل ہیں، جہاں وہ ایک غیر حل شدہ تنازعہ میں مخالف دھڑوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ گیس سے مالا مال مشرقی بحیرہ روم میں سمندری سرحدوں پر بھی دونوں ملک متضاد خیالات رکھتے ہیں۔ یونان اور مصر مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی گیس کے ذخائر کی تلاش اور اس سے فائدہ اٹھانے کے حقوق کے بارے میں سمندری حدود کے تنازعہ میں ترکیہ کے ساتھ متصادم ہیں جس کی وجہ سے 2020 میں یونان اور ترکیہ کی طرف سے ایک بڑی فوجی تشکیل کو متحرک ہوئی اور فوجی تصادم کے خدشات پیدا ہوئے۔اگست 2020 میں یونان اور مصر نے ایک سمندری معاہدے پر دستخط کیے جس میں دونوں ممالک کی سمندری حدود کی حد بندی کی گئی اور تیل اور گیس کی ڈرلنگ جیسے وسائل کے استحصال کے لیے متعلقہ خصوصی اقتصادی زون قائم کیے گئے۔ اِس جزوی معاہدہ نے ترکیہ کو ناراض کیا اور اس نے یونان پر مشرقی بحیرہ روم میں وسائل کے غیر منصفانہ حصہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔یونان،مصر معاہدے کو ترکیہ اور طرابلس میں قائم لیبیا کی انتظامیہ کے درمیان 2019 کے آخر میں طے پانے والے ایک متنازعہ معاہدے کے ردعمل کے طور پر دیکھا گیا جس کے تحت ترکیہ کو مشرقی بحیرہ روم کی ایک راہداری میں ڈرلنگ کرنے کے حقوق حاصل ہوئے۔اَلبتہ اِس راہداری کے زیادہ تر حصہ پر یونان بھی دعویٰ رکھتا ہے۔ یونان، قبرص اور دیگر علاقائی ملکوں نے ترک لیبیا معاہدے کو "غیر قانونی" قرار دیا ہے، جس کی ترکی ہمیشہ تردید کرتا ہے۔مارچ 2021 میں یہ رپورٹس میڈیا میں آنا شروع ہوئیں کہ ترک حکومت اخوان المسلمون سے منسلک میڈیا اداروں کی سرگرمیوں کو محدود کر رہی ہے اور انہیں متنبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی ادارتی پالیسیوں کو تبدیل کریں اور مصر اور السیسی کو نشانہ نہ بنائیں۔ دراصل اخوان المسلمون کے حوالے سے ترکی کی پالیسی میں تبدیلی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کا بنیادی عنصر ہے۔ دوسرا خلیجی بحران کا حل ہونا بھی انقرہ اور قاہرہ کے مابین کشیدگی کم کرنے کی ایک اہم وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔ تاہم، قاہرہ اور انقرہ کے لیے تعلقات کو بہتر بنانے کا عمل سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ مصر اگلے اقدام کے لیے 14 مئی 2023 کو ہونے والے ترکیہ کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا انتظار کر رہا ہے۔