بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ جیسی اب ہے۔ تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ جملے اور خیال سارے پُرانے لگتے ہیں کہ بات اب ان سے کافی دورنکل گئی ہے۔ کسی کو بات تو کرنا چاہیے۔ قائدِ اعظم جب پاکستان بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے تو اُن کے اور گاندھی کے درمیان فرق کیا تھا؟ گاندھی مذہبی منافرت اور منافقت کا شاہ کار تھے۔ قائداعظم اس تضاد سے پاک تھے۔ وہ جو کہتے تھے اس کا وہی مطلب ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود اپنی گرتی ہوئی صحت کے ساتھ وہ پاکستان بنا گئے۔ نہرورپورٹ والے موتی لال نہرو کے سیاستدان بیٹے جوہر لال نہرو منافقت کی جیتی جاگتی تفسیر تھے۔ گاندھی اور ولبھ بھائی پٹیل کیا چاہتے تھے ؟ یہی کہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ایک الگ خطہ سرزمین برصغیر کے مسلمانوں کو میسر ہو؟ ہرگز نہیں ۔ لیڈر شپ جناح کی ہو اور تصور اقبال کا تو منزل مل ہی جاتی ہے مگر دوسری جانب ایک اور بھی مکتبہ فکر تھا ۔ جو چاہتا تھا کہ پاکستان کی شکل میں الگ ملک بنانے کی بجائے اسی متحدہ ہندوستان میں یک جہت ہو کر ہندو اور انگریز کی بالادستی کے خلاف نعرہ حق بلند کیا جائے۔ مولانا مودودی ، ابو الکلا م آزاد صاحب بھی اس خیال کے وکیل تھے۔ علامہ مشرقی اور ابو الکلام آزاد کے تقسیم سے پہلے کے بیانات آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن میں 1947ء میں بننے والے پاکستان کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ یہاں کچھ مخصوص طبقات کی بالا دستی ہوگی۔ بعد میں حیرت انگیز طور پر قائداعظم کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد مولانا آزاد اور علامہ مشرقی کی باتیں درست لگنے لگیں۔ جمہوریت وہ جو برطانیہ سے ورثے میں پائی یعنی پارلیمانی جمہوریت ۔ مگر تضاد یہ ہے کہ کئی سال تک نہ آئین نہ الیکشن ۔ ملک کے دو حصے ،ایک کہے پورب تو ایک کہے پچھم۔ 50 سال گزر گئے کسی نے نہیں بتایا۔ کسی نے نہیں پوچھا۔وہ کتنے قصور وار تھے، تاریخ کا ریکارڈ ہی درست کرلو۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں یہ دن اُس ہستی ؐنے دیا جو برداشت کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ اُنؐ کا خلق۔۔۔ خلق عظیم ہے۔ مگر ہم؟ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ اس قلعے کی فصیلوں کی بات تو نہیں کرتے مگر اس قلعے کے اندر جو مسلمان بستے ہیں جو خود کو فخر سے پاکستانی کہتے ہیں اُن کی اخلاقی حالت پر بات ہو جائے تو شاید اس قلعے کے اندر بسنے والوں کے تضادات سمجھ آجائیں۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم مغربی جمہوریت کے پیرو کار ہیں یا اسلامی روایات اور تاریخ کے علم بردار؟ ہمیں اپنے نظام انصاف میں جھانکنا ہوگا۔ جہاں نظام انصاف چند مافیاز کی گود میں۔ ہمیں یہ بھی جائزہ لینا ہوگا کہ اسلام میں لیڈر شپ کا جنم کیسے ہوتا ہے اور مغربی جمہوریت میں لیڈر شپ کا ظہور کسطرح ؟ برائے مہربانی رکیئے اور سوچئے کہ جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے حکومتیں اور ریاست بھی اُسے روکنے سے کیوں ڈرتی ہے؟ کسی حکمران نے اصلی یا جعلی نے کبھی بھی یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ شہر کیوں پھیلتے ہیں؟ لاہور ایک مثال ہے جو ایک جانب قصور تو دوسری طرف شیخوپورہ سے آگے نکل گیا۔ لاہور کی سڑکوں پرمحرم ، عید اور شب برأت کے علاوہ عام دنوں میں اتنے انسان کہاں سے آتے ہیں؟ کیا گائوں سے نکل کر لاہور (دوبئی یا نیویارک ) شفٹ ہونے پر کوئی روک تھام کوئی چیک ، کوئی قدغن؟ گاڑیاں ہی گاڑیاں۔ شوکت عزیزسے کسی اور عزیز تک کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ کتنے گیٹ ٹو گیدرز مگر اصلاح حال کی بجائے بے شمار نظریات ، عدم برداشت اور منافقت ہی منافقت ! انقلاب تو آنے سے رہا۔ نہ یہ ترکی ہے نہ ایران۔ اسکی وجوہات پر بات ہونہیں سکتی۔ مگر خدا را رُکیے۔۔۔ سوچئے ۔ اپنے اپنے کردار کا تعین کیجیے، اپنی اپنی حدود میں رہیے۔ ایک ایماندار سِول سرونٹ کہا کرتے تھے،’’ہم میں سے ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کی جیب میں ہے‘‘ ۔ کراچی کے ایک کاروباری شخص ہیں ، وہ میڈیا پرفرمارہے تھے ’’ہجوم اگر چار پانچ لوگوں کو مار دے تو ہمیں اُسکو بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔ اُس کاروباری کو کون سمجھائے کہ جو مارے گئے وہ ریاست کی نمائندگی کر رہے تھے۔ جو پولیس والے مارے گئے شاید کسی نے کبھی ایسے ہی لوگوں کے بارے لکھا تھا’’ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘۔ اگر ہم گاجریں کاشت کریں گے تو گندم تو نہیں اُگے گی۔ اگر پون صدی نے تضادات کو جنم دیا ہے ہمارے وطن میں تو وہ جو انڈے بچے دیں گے وہ منافقت کو مزید ضرب دیدیں گے۔ میرے پسندیدہ جانثار اختر کے بیٹے جاوید اختر جنہیں ان کی والدہ صفیہ اختر پیار سے جادو کہتی تھی ان کی نظم جس کا موجودہ صورتحال سے کوئی تعلق نہیں، آپ کی نذر۔ کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں چلنے سے پہلے بتائیں کہ اُن کی سمت کیا ہے؟ ہوائوں کو یہ بھی بتانا ہوگاکہ چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی اُن کی کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے۔ کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں ذرا یہ سرکشی کم کردیں۔ اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا تو ان کو ہوگا چپ چاپ بہنا۔ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے، لہریں کب حکم سنتی ہیں، لہریں روکی جائیں ، تو دریا کتنا بھی ہوپرسکوں بیتاب ہوتا ہے اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے۔ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے ؟