کتاب سے متعلق ایک دانشور کا یہ جملہ مجھے ہمیشہ ہانٹ کرتا ہے کہ: ’’ایک اچھی کتاب پڑھ لینے سے انسان اپنے ہم عمروں سے ایک سال بڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کتابوں کے روز روز کے تذکرے سے آپ میری عمر کا تعین کرنا شروع کر دیں۔ یہ تو اپنے اپنے تجربات کی حامل تین محبتیں ہیں، جو احباب کی جانب سے حال ہی میں موصول ہوئی ہیں اور جن کے مطالعے نے مجھے تازہ کیا ہے۔ بریگیڈیئر حامد سعید اختر ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ ان کی کس کس جہت کا ذکر کیا جائے۔ وہ ایک دھڑلے دار فوجی افسر رہے، مشرف کے دور میںوزیرِ باتدبیر بنے۔ نیز ’وزیرِ باتقریر‘ کے حوالے سے بھی شہرت کمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی عمر کے حوالے سے بھی ایک تحقیقی کتابچہ تحریر کیا۔ ’’صد شعرِ غالب‘‘ کی تحقیق و تفہیم سے انھوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک دانا قسم کے غالب شناس بھی ہیں۔ سو شعروں کی شرح بیان کرتے ہوئے انھوں نے دیگر شارحین کے تقابلی مطالعے کے ساتھ ساتھ، تاریخ اور متعدد زبانوں کے ادب کی ماہرانہ غواصی کی۔ وہ مضمون یا شرح لکھتے ہوئے ایک ایک لفظ، ترکیب، محاورے اور مِتھ کی اتنی چھان پھٹک کرتے ہیں کہ خود لغت ہاتھ جوڑ کے کھڑی ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے افسانے کا روگ بھی پال رکھا ہے۔ افسانوں کے پلاٹ اتنے کسے کسائے ہوتے ہیں کہ عام قاری کسمساتا رہ جاتا ہے۔ پھر ان کے افسانوں کے کردار تو ایسے دبنگ اور ہمہ رنگ ہیں کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔بریگیڈیئر صاحب بعض کرداروں کی محض مخبری کرتے ہیں، بعض کی مختلف زاویوں سے تصویریں بناتے ہیں اور بعض کی تو باقاعدہ نفسیاتی تھراپی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماہنامہ ’الحمرا‘ میں گاہے ماہے چھپنے والے انکے یہ افسانے اپنے اچھوتے موضوعات اور انوکھے حقائق کی بنا پر ہمیشہ توجہ کھینچنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اب انکے یہی افسانے کتاب کا بدن اوڑھ کے ’’فریبِ ہستی‘‘ کے پیکر میں ڈھل چکے ہیں۔ ان چھبیس کرشماتی تحریروں میںفریبِ ہستی کی متعدد جھلکیاں ہیں، جن پر جا بہ جا ’دامِ خیال‘ کی طلسم کاری بھی کی گئی ہے، جو انسانی حواس کو چونکانے اور جھنجھوڑنے کے ساتھ ساتھ حیرت و لطافت کا سامان بھی کرتی ہیں۔ دوسری کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل سیشایع شدہ ایک بیوروکریٹ جناب رائے ریاض کی ’’رائے عامہ‘‘ ہے، جس کے ایک سو ساٹھ صفحات ان کی بائیوگرافی پر محیط ہیں، جس میں ایک دیہاتی لڑکے کی محنت اور لگن کا بیان ہے، جو اسے کامیابیوں سے ہم کنار کرتی ہیں۔ آخری سو صفحات انتیس کالموں کے لیے مختص ہیں، جنھیں میاں نواز شریف کا نثری قصیدہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کالموں میں مشرف کے جبر اور زرداری کی لُوٹ مار کا بھی خوب چرچا ہے۔ وہ ان دونوں حکمرانوں کو عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں بھی شرم دلاتے نظر آتے ہیں لیکن نجانے وہ یہ بات میاں صاحب سے کہنا کیوں بھول جاتے ہیں۔ کتاب کے گرد مجھ جیسے عام قارئین کو مرعوب کرنے کے لیے معروف صحافیوں کی آرا کا مضبوط توصیفی حصار ہے۔ مصنف کے نام کے حوالے سے یہ عنوان یقینا متاثر کن ہے لیکن کتاب میں ہمیں قدم قدم پر ’رائے عامہ‘ کی بجائے ان کی ذاتی رائے ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ رائے صاحب چونکہ نہایت کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں، انھوں نے پاکستان کے چار وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا ۔ بھارت اور جاپان جیسے اہم ممالک میں ان کی تعیناتی رہی، اس لیے ان کے مشاہدات اور تجربات سے یقینا بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ بالخصوص بھارت میں الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کے پاکستان اور کشمیریوں کے لیے بے حِسی پر مبنی ہتک آمیز رویے انتہائی شرم ناک ہیں۔ کتاب میں جوں ہی میاں نواز شریف یا مشرف کا تذکرہ آتا ہے، وہاں ایک غیر جانب دار مبصر غائب ہو جاتا ہے اور ایک فریق بولنے لگتا ہے۔ بارہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو وزیرِ اعظم ہاؤس میں پایا جانا لازمی طور پہ ان کی ن لیگ سے وابستگی پہ دال ہے لیکن میاں صاحب کی حرص و ہوس سے ہریسے کے تمام معاملات کا جذباتی دفاع کرتے چلے جانا اس کے ’رائے عامہ‘ ہونے کے راستے میں حائل ہے۔ تیسری کتاب ’’خاک سا خاکی‘‘ نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے جناب بریگیڈیئر بشیر ارائیں کی فوجی زندگی کے نشیب و فراز کی دل گداز داستان ہے۔ ایک غریب لیکن محنت اور خدمت پہ یقین رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کے تعلیمی، سماجی، سیاسی اور بری فوج کی ملازمت کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ عجز، خلوص اور سادگی اس کے اسلوب اور بیان کا خاصہ ہے۔ عمر بھر انھوں نے ماں جی اور میاں جی کو مرشد نیز پورے خاندان اور ضرورت مندوں کی خدمت کو اپنا منشور بنایا۔ کتاب طربیہ، المیہ واقعات اور دلچسپ کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ 1991ء میں جب یہ سیاچین بیس کیمپ میں تعینات تھے تو ان کی نئی نویلی دلھن نے شکوہ کیا کہ کیسے سنگ دل فوجی ہو، بندہ فون پہ کبھی آئی لوّ یو ہی بول دیتا ہے۔ انھوں نے سمجھایا کہ ایسا ممکن اور مناسب نہیں کہ ایکسچینج والے ہمارا فون سنتے ہیں۔ دوسرے دن سگنل کمپنی کے افسر کا فون آیا کہ ’سر آپ الزام نہ لگائیں، ہم کسی کا فون نہیں سنتے، آپ بے دھڑک بھابی جی کی فرمائش پوری کریں۔‘ پھر میجر اطہر صدیقی کی دو بیٹیوں کے کینجھر جھیل میں ڈوب جانے کا وقوعہ بھی نہایت دل خراش ہے، جسے انھوں نے بھاری دل کے ساتھ لکھا ہے۔ بعض کردار تو ڈراؤنی فلموں اور ٹریجک افسانوںسے بھی زیادہ چونکا دینے والے ہیں۔ خاص طور پہ چترال کہ جہاں کے قیام کے زمانے کو بریگیڈئیر صاحب شدت سے یاد کرتے ہیں، چترال، جو اپنی منفرد ثقافت اور پُر فضا مقام ہونے کی وجہ سے نہایت اہم ہے اور قومی و بین الاقوامی شخصیات کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ مصنف نے چترال کا دورہ کرنے والی سیاسی شخصیات، بالخصوص نواز شریف اوربے نظیر کے لالچی ساتھیوں اور فوائد بٹورنے والے خوشامدی افسران کی ذہنیت کو نہایت عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ بالخصوص وہاں کے کمانڈنٹ افسر کرنل مراد خاں نیّر والا واقعہ تو دل دہلا دینے والا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ پھالیہ کے گاؤں کا ایک نوجوان مراد خاں عرف مادی ملک، میٹرک کے بعد گھر والوں سے لڑ جھگڑ کے چپکے سے فوج میں بھرتی ہوجاتا ہے۔ پچیس سال بعد جب وہ کرنل کے عہدے پر پہنچتا ہے تو اچانک اُس کی ملاقات اپنے لنگوٹیے دوست حیدر کاظمی سے ہو جاتی ہے، جو اس کی منت سماجت کے بعد اسے گاؤں جانے پہ راضی کر لیتا ہے۔ اسی دوران نئی شادی شدہ وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی شندور میلے میں شرکت کا چرچا ہوا، جہاں مردِ اول نے پولو کھیلنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ کھیل کر جب زرداری صاحب گھوڑے سے اُترے تو ایک میجر قدموں میں بیٹھ کر جمِ غفیر کے سامنے اُن کے بُوٹ اتارنے لگا۔ کرنل مراد چیخے کہ اسے کہو اور کچھ نہیں تو اپنی وردی کا خیال کرے۔ یہ آواز حکام کے کانوں تک بھی پہنچ گئی، پھر کیا تھا، کرنل کی جبری ریٹائرمنٹ کے آرڈر آ گئے۔ ریٹائرمنٹ والے دن یعنی 3 اگست 1989ء کو کمرے سے کرنل مراد کی لاش ملی۔ گولی ان کی دائیں کنپٹی سے آر پار ہوئی تھی۔