قد آوری کے باب میں اپنی مثال تھا جس آدمی کو شہر کے بَونوں نے جا لیا آج سے پون صدی قبل ایک شاعرِ خوش نوا کے ایکخوش نما خواب کے نتیجے میں برِ صغیر کے شمال مغربی خطے میں روایات کو روندتا ہوا، دنیا کے واحد دینِ کامل کے نام پر ایک منفرد ملک وجود میں آ گیا، جسے دیکھ کر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ خواب وہ نہیں ہوتا جو نیند کا محتاج ہو، بلکہ اصل خواب وہ ہوتا ہے جو راتوں کی نیندیں اڑا دے۔ یہ ایسا ہی ایک خواب تھا۔ جسے ایک جوانِ رعنا نے پاک دھرتی (پاکستان) کا عنوان عطا کیا۔ ایک مردِ دانانے اس کی عملی تشکیل کو ممکن بنا دیا۔ لوگوں نے پہلے اس پر انگلیاں اٹھائیں، پھر دانتوں میں داب لیں۔ اس کے قیام سے جن تاریک باطن طاقتوں کی نیندیں اڑی تھیں، جن کے ناپاک عزائم خاک میں ملے تھے، وہ اس پاک سر زمین میں اندھیرے بونے کے لیے پہلے دن سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ پہلے پہل اس پر جنگیں مسلط کی گئیں، پھر اس سرزمین پر جنگی مزاج کینسر کاشت کیے گئے۔ نفرتوں کی آبیاری کے نتیجے میں اس کے حصے بخرے ہوئے۔اس کا وقار اور دبدبہ پھر بھی متزلزل نہ ہوئے تو اس پر نالائق لوگوں کو مسلط کرنے کی سیریز شروع ہو گئی۔ابلیس سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمھیں اپنے کس کارنامے پر سب سے زیادہ خوشی ملتی ہے؟اس نے جواب دیا جب مَیں کسی دفتر، ادارے، علاقے، گروہ کی سربراہی کسی نا اہل کے سپرد ہوتے دیکھتا ہوں، مطمئن ہو جاتا ہوں کہ اب باقی کی کسر یہ خود پوری کر لے گا۔ یہاں بھی کبھی جعلی جمہوریت کے رنگا رنگ تجربات کے ذریعے اس کا دامن داغ دار کیا گیا۔ بھولے بھالے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کبھی کسی عوامی حکمران کے منھ میں روٹی کپڑے کا نعرہ ڈالا گیا، کہیں دینی حمیت کی آڑ میں اسلام کا نام استعمال ہوا،کسی لال بجھکڑ نے کشکول توڑنے کے نعرے کو اقتدار کی سیڑھی بنایا۔ یقین جانیں پچھتر سالوں کے بے رنگ منظرنامے میں ایک ہی خوش رنگ نظر آیا،جس پہ اعتبار کرنے کو جی چاہتا تھا۔ کیونکہ اس میں کچھ کر گزرنے کا عزم دکھائی دیتا تھا۔ اس نے دنیا بھر کی دولت شہرت کو لات مار کے کانٹوں کا تاج پہنا، وہ پسے ہوئے طبقے کی آواز بن گیا ۔ وہ دولت کی ہوس اور ڈرامے بازی کی سیاست کو جوتے کی نوک پہ رکھتا تھا۔ سب نے کہا: ہم ورلڈ کپ نہیں جیت سکتے، اس نے جیت کے دکھا دیا۔ کینسر جیسے ہسپتال بنانے میں حکومتیں ناکام ہو گئیں، اس نے تنِ تنہا کئی ہسپتال بنا کے یہ کارنامہ بھی کر کے دکھا دیا۔ برطانوی یونیورسٹی کا قانون اجازت نہیں دیتا کہ اس کی برانچ کسی دوسرے ملک میں بنے، اس کی ضد کے سامنے قانون ہار گیا اور ایک پسماندہ علاقے میں بین الاقوامی طرز کی یونیورسٹی وجود میں آ گئی۔ وہ شخصیت جس نے عالمی پلیٹ فارم پر اسلامو فوبیا کی جنگ لڑی اور جس کی استقامت کے لیے دنیا بھر کے مسلم ممالک کی مساجد میں روزانہ دعائیں کی جاتی ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ وہ اس میدان میں کسی بابِ رعایت سے نہیں آیا، وہ کسی مقروض و مکروہ سیاست دان کا بیٹا ، بھانجا یا بھتیجا نہیں ہے۔ وہ راتوں رات والے کوٹے کا حصہ نہیں بلکہ اس کی جدوجُہد کے پیچھے ربع صدی کی عرق ریزی ہے۔ جس کے منھ میں مخالفین کو ناکوں چنے چبوانے والے بیانات کے لقمے ڈالنے کے لیے خرانٹ لوگوں کے گروہ ہائر نہیں کیے جاتے۔ وہ واحد سیاست دان ہے، جس نے اپنی ساری جائیداد وطنِ عزیز کے نام کر دی۔ اللہ نے اس کو ایسی عظمت عطا کی کہ جو اس دیو قامت کے سامنے آیا بونا بن گیا۔ تیرہ پارٹیاں اس کے مقابل آ کے یاجوج ماجوج میں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ ایک زمانہ تھا کہ الطاف بھائی اور فضل الرحمن کی ہر غلط سے غلط بات بھی تنقید سے بالا تھی۔اپنا ملک تو اپنا ملک دنیا بھر کے حکمران اس کے سامنے دبے دبے سے دکھائی دینے لگے۔ وہ جس کپڑے پہ دستخط کر دیتا، وہ کروڑوں کا ہو جاتا۔ اس کی نقل میں کتنے لوگوں نے کتنے بچوں کی قمیضیں خراب کیں، جنھیں خریدنا تو درکنار دھوبی نے دھونے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کی حکومت اس لیے ختم کی گئی کہ یہ بد بودار خاندانی سیاست پہ پابندی لگانے جا رہا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ سے اس کا سر اونچا دکھائی دینے لگا تھا۔ ملکی معیشت مضبوطی سے پَیر جما رہی تھی، جس سے امریکا کی غلامی اور آئی ایم ایف کی شیطانی اپنی موت آپ مر جاتی ، جس سے کھابوں، بابوں، عذابوں کا خود بخود خاتمہ ہو جاتا۔ اس کے ہونے سے نئی نسل کا شعور تیزی سے جڑ پکڑ رہا تھا۔ اس نے لفافہ صحافت کی حوصلہ شکنی کی۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کو رہنما بنایا۔ یہ جھکا نہیں، بِکا نہیں۔ لوگ اس کی محبت میں کہنا شروع ہو گئے: میرے انمول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکھاں! حیرت کی بات کہ وہ اسی قومی خزانے کے ساتھ عوام کو عذاب میں مبتلا کرنے کی بجائے صحت کارڈ جیسی نعت سے عام آدمی کو سرفراز کیے ہوئے تھا۔ مسافروں، مسکینوں کے لیے لنگرخانے رواں تھے۔ ایسا احساس پروگرام بھی چل رہا تھا، جس میں بے نظیر فنڈ کی طرح وزیر، مشیر، بیوروکریٹ قطار اندر قطار نہیں کھڑے تھے۔ اسی خزانے سے متعدد ڈیم بھی زیرِ تعمیر تھے۔ قرضے بھی اتر رہے تھے۔ ڈرون حملوں کے آگے ڈھال بنا بیٹھا تھا۔ لوڈ شیڈنگ کی مناہی کر رکھی تھی۔ پٹرول پورے ایشیا سے سستا دے رہا تھا اور سب سے بڑھ کے یہ کہ قومی غیرت کا سودا کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہ تھا۔ پھر حالات کے کلیجے میں سُول اُٹھا اور بجٹ کا اُلٹی طرف سے مطالعہ کرنے والے جادوگر حکومت میں آ گئے۔ مجرم سرکاری پروٹوکول کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہونے لگے۔ خزانے کا کورا گھڑا تِڑک گیا۔ اسی خزانے کے پیسوں سے ایک پارٹی ہنی مون کے دوروں اور دوسری دل کے دوروں پہ ایمان لے آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں میں بیٹھی بزرگ خواتین دہشت گرد اور بندوقوں، بارودوں والے مدعی بن بیٹھے۔ مارچ میں مہنگائی کا مارچ کرنے والے اپریل میں مہنگائی کا اپریل فول منانے لگے۔ گھریلو خدمت بجا لانے والی نرسوں اور بریف کیس کلچر متعارف کرانے والوں کی نسلوں کی لاٹری لگ گئی۔ جناح ؒ کے بعد واحد شخصیت ہے کہ جس کے لیے دنیا بھر کے لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سڑکوں پہ آ گئے کیونکہ وہ علاج کی غرض سے بیرونِ ملک نہیں بھاگا۔ اس نے قومی وقار کا سودا نہیں کیا۔ کسی نابالغ بیٹے کو پارٹی کا ناڈو خاں اناؤنس نہیں کیا۔ بیرونِ ملک بنکر تعمیر نہیں کیے۔ دورانِ حکومت خاندانی کاروبار پہ توجہ نہیں کی۔ اس کے انھی غیر متزلزل عزائم اور جُہدِ مسلسل کو دیکھتے ہوئے دیس بدیس کا ہر پڑھا لکھا اور باشعور فرد سر تا پا دعا گو ہے: خواب دیکھے ہیں تو تعبیر بھی لازم ہوگی آنکھ میں اشک ہیں تاثیر بھی لازم ہوگی عصرِ بد رنگ سے فرصت تو میسر آ لے قصرِ خوش رنگ کی تعمیر بھی لازم ہوگی