افواجِ پاکستان عشروں پر محیط دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے ایک مستعد لڑاکا مشین میں بدل چکی ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے ابتدائی برسوں میں ہماری نسل فوج میں آئی تو’ برطانوی‘ اور’ امریکی ‘جنریشنزکے بعد ستر کے عشرے اور جنگ کے فوراََ بعد کمیشن پانے والی ’پاکستانی جنریشن ‘کے افسران یونٹوں اور کمپنیوں کی کمان کر رہے تھے۔ ملک میں’اسلامائزیشن‘ کا عمل زورو شور سے جاری تھا کہ فوج بحیثیت ادارہ جس کے اثرات کے دائرے سے لاتعلق نہ تھی۔ سال1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایک کتاب کے دیباچے میں لکھا،’’ایک اسلامی ریاست کی ’اسلامی فوج‘ کا’پروفیشنل سپاہی‘ اس وقت تک خود کو ’پروفیشنل‘نہیں کہلا سکتا ،جب تک وہ خود کو’اللہ کے رنگ ‘میں نہ رنگ لے‘‘۔ ایک خاص مذہبی مکتبہ فکر پر مبنی لٹریچر سرکاری طور پر جاری ہونے لگا۔افسروں کی بود و باش کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ۔شیروانی نے میس کٹ اور شلوار قمیض نے سرکاری لباس کی حیثیت اختیار کرلی۔سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر مذہبی مجالس معمول کا حصہ بن گئیں۔’لنگرگپ‘ (Grapevine) تھی کہ جو نوجوان افسر’غیر اسلامی‘ سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں، ایجنسیاں ان کے نام حکامِ بالا کو رپورٹ کرتی ہیں۔ چنانچہ نوجوان افسروں اور ایجنسیوں کے مابین آنکھ مچولی بسا اوقات دلچسپ صورت اختیار کر لیتی۔بقول پروفیسر سٹیفن پی کوہن ،جب ’ فوج کے اندر ’مغربی سٹریٹیجی‘ اور ’اسلامی نظریہ حرب‘ کے ملاپ پر کام ہورہا تھا ‘، توہمارے ہاں کی ’اسلامائزیشن‘ اور خطے میں امریکی مفادات بھی ہم آہنگ ہونے لگے۔ افغان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا توکہنے کو پاکستان اس جنگ میں امریکی اتحادی اور ’فرنٹ لائن سٹیٹ‘ تھا، مگر اس کی مسلح افواج اس جنگ میں باقاعدہ طورپر شریک نہیں تھیں۔چنانچہ ہم جیسے نوجوان افسران جو اس دور میں یونٹوں کا حصہ بنے تو ہمارا واسطہ زیادہ تر ٹریننگ اور ایڈمنسٹریٹو معاملات سے ہی پڑتا کہ جن میں’ایڈمنسٹریشن‘ پر نسبتاََ زیادہ توجہ مرکوز رہتی۔ اس امر کے باوجود کہ سیاچن سمیت سنگلاخ پہاڑوں، صحرائوں اور میدانوں میں ہمارے افسر و جوان شجاعت کی انفرادی داستانیں رقم کرتے رہتے، کہا جا سکتا ہے کہ آج ’کمبیٹ ڈریس‘میں ملبوس چاک و چوبند نوجوان افسروںاورجوانوں کے دستے کہیں زیادہ مستعداور پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں۔اس وقار اور مستعدی کے پیچھے کارفرماجذبہ مفت میں ہاتھ نہیں آیا۔یہ وہ احساسِ تفاخر ہے جو بے چہرہ جنگ میں سفاک دشمن کے خلاف پنجہ آزمائی کا ثمر ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد افواجِ پاکستان نے روایتی Conventional) ( جنگ لڑنے کے طریقہ کار (Doctrine)اور اسی نسبت سے استعدادکار(Capability) کے بڑھائے جانے پر سنجیدگی سے کام کیا۔ تاہم اکیسویں صدی کے ظہور کے ساتھ ہی جب ہمیں ایک بے چہرہ دشمن کے ساتھ’ غیر روایتی جنگ‘ کا سامنا ہوا تو ہماری افرادی قوت کی تربیت اور غیر روایتی جنگ کے خلاف مناسب سامانِ حرب کے فقدان جیسی نئی مشکلات ابھر کر سامنے آئیں۔ پہاڑ جیسی دشواری مگر اُس وقت درپیش آئی جب ایک اسلامی ریاست کی ’اسلامی فوج‘ کے ’مسلمان سپاہی‘ کو ایک ایسے ’مسلمان مجاہد‘ کے خلاف کارروائی کا حکم ملا جوبظاہر ایک غیر مسلم طاغوتی قوت کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔یہ ایک بہت عجیب صورتحال تھی۔ہوا ئوں کا رُخ بدل چکا تھا۔ کل کے دوست دشمن اور دشمن دوست بن چکے تھے۔اگرچہ پاک فوج کے افسروں اور جوانوںنے ایک بار پھروطن کی پکار پر لبیک کہا، تاہم کئی اندرونی و بیرونی عوامل تھے جو آڑے آرہے تھے۔کئی مذہبی حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’حرام‘ قرار دیا جا چکا تھا۔ سرکاری مساجد میں بھی خطیب صاحبان اپنی تقاریر میں تواسلام کو امن و سلامتی کا مذہب ثابت کرتے، تاہم اختتامی دعائوں میں دنیا بھر کے کافروں کی بربادی کی خواہش کا اظہار کرنا نہ بھولتے ۔ ایک معروف مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے تو ’امریکی جنگ میں مارے‘ جانے والے شہیدوں کے جنازے تک پڑھنا ناجائز قرار دے دیا گیا۔ صرف مذہبی رہنماء ہی نہیں، کئی معروف سیاستدان بھی تھے، جو دہشت گردوں سے نبرد آزما پاک فوج کی پیٹھ پر تازیانے برساتے۔ کئی اہم سیاستدانوں کی اس دور میں کی گئی تقاریر اور بیانات آج بھی سوشل میڈیا پر آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ درجنوں ٹی وی چینلز پر کھمبیوں کی طرح اُ گ آنے والے نیم خواندہ ’میڈیا سٹارز‘ تھے جو دہشت گردوں کے انٹرویوز براہِ راست چلاتے اور انہیں ’گلیمرائز‘ کرتے۔فکری خلجان تھا کہ بڑھتا چلا گیا۔ نتیجے میںجنگ کے دوران ایسا بھی ہوا کہ خود ہمارے اپنے کئی ساتھیوں کو بیٹھے بیٹھے دہشت گردوں کی لاشوں سے ’عجیب خوشبوئیں‘اٹھتی ہوئی محسوس ہونے لگتیں۔بد قسمتی سے پاک فوج کی سامنے نظر آنے والی قرباینوں کے باوجود ابھی تک عوام کی اکثریت دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنانے کے لئے تیار نہیں تھی۔ ایک عشرے سے زیادہ ہم نے اس فکری خلفشار کی بھاری قیمت اپنے جرنیلوں، ان کے بچوں، نوجوان افسروں اور سجیلے جوانوں کی جانوں کی صورت میں ادا کی۔ہزاروں معصوم پاکستانی اس بے چہرہ جنگ کا ایندھن بنے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آرمی کا شاید ہی کوئی ایک افسر، جوان اور خاندان ایسا ہوکہ جس کے جسم وجان پرگہرے زخموں کے نشانات موجود نہ ہوں۔ سٹیفن پی کوہن ستر کی دہائی میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے والی نسل کو ’پاکستانی جنریشن‘ کہتے ہیں۔ اوون بینٹ جانز ہماری نسل کو ’ضیاء الحق جنریشن ‘ کہتے ہیں۔ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف میدانِ جنگ میں انہی دو نسلوں کے ساتھ اُتری تھی۔ رفتہ رفتہ جب نظریاتی خلفشار پر قابو پا لیا گیا تو قوم بھی ہماری پشت پر کھڑی ہو گئی۔ جنرل ہارون اسلم جیسے جرنیل دہشت گردوں سے بھری وادیوں میں خود اُترے۔معاشرے میں موجود دہشت گردوں کے سہولت کار بھی رفتہ رفتہ بے نقاب ہونا شروع ہو گئے۔چنانچہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں درپیش شدید فکری خلفشارکے باوجود، یہی دو نسلیں اپنی تمام تر کمزوریوں اور نظریاتی الجھنوںپر قابو پاتے ہوئے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہوئیں۔ پھر نوجوان افسروں نے جنگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔دس شہداء میں ایک نوجوان افسر شامل ہوتا۔آپ چاہیں تونوجوان غازیوں اور شہیدوں کی اس جنریشن کو کوئی بھی نام دے لیں۔ جنگ کے ابتدائی برسوں کا عینی شاہد ہونے کے باعث ازکارِ رفتہ سپاہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاک فوج کی کامیابی کو ایک معجزے سے کم نہیں سمجھتا۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا خلاصہ ایک اخباری کالم میں ممکن نہیں۔ مختصر پیرائے میں مگرایک بات تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی کہ دنیا کی کوئی بھی فوج ، چاہے کسی قدر بھی مستعد اور طاقتور ہو، عوام کی تائید اور حمایت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتی۔ فتح یابی کے لئے ہر دو کا ایک صفحے پر ہونا لازم ہے۔جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان دشمنوں میں گھرا پڑا ہے۔غیر روائتی جنگیںنئی نئی شکلوں میں ہم پر مسلط ہوتی رہیں گی۔چومکھی جنگوں اورنت نئے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے قومی اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔