اگر کسی کو اب بھی شک ہو کہ موجودہ حکومت سب ٹھیک کر لے گی اور حالیہ ہر طرح کے بگارڈ کے ذمہ دار عمران خان ہیں تو مخترمہ مریم نواز کے اس بیان کو پڑھ یا سن لے، فرماتی ہیں: موجودہ حکومت ہماری حکومت نہیں ہے، ہماری حکومت تو تب ہوگی جب نواز شریف وزیراعظم ہونگے، شائد اعصاب جواب دے چکے ہیں، لہذا عمران خان کو گرفتار یا نااہل کرنے کا روز کوئی نہ کوئی جواز تراشا جاتا ہے، ہر دوسرے روز زمان پارک کے باہر عوام جمع ہو جاتی ہے۔ حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے کی غرض سے ٹیسٹ کرتی ہے اور الٹے پیروں واپس جانے کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دراصل حکومت کی خواہش ہے کہ اسکی نااہلی، معاشی بگارڈ پر کوئی آواز بلند نا ہو، اسی لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت متعدد رہنماؤں کے خلاف حکومت کے قیام کے بعد مقدمات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ شیریں مزاری سے لے کر شیخ رشید تک گرفتاریوں کے بعد مظالم کی صدائیں سامنے آتی رہیں مگر جب دیکھا کہ کرپشن کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں اور پوری کی پوری تحریک انصاف سرنڈر کرنے کو تیار نہیں بلکہ عوام میں اسکی مقبولیت میں بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے تو اب عمران خان کو گرفتار یا نااہل یا دونوں آپشن کے استعمال کو اپنی سیاسی بقاء کا واحد ذریعہ تصور کر بیٹھے ہیں لیکن ایسا ہوگا نہیں؟ البتہ ایسے آپشنز کو طاقت کے ذریعے استعمال کرنے سے عوامی حمایت سے فارغ پی ڈی ایم حکومت مذید سیاسی تنزلی کا شکار ہوجائیگی۔ عوام کا رد عمل شدید ہوگا اور مہنگائی، بے روزگاری، غربت کی شکار عوام کے پاس اپنا غصے کے اظہار کا ذریعہ آ جائیگا، ان حالات کو زمان پارک میں بیٹھے عمران خان سمجھ چکے ہیں، گویا انھوں نے بدھ کے روز لاہور سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ حکومت آئین کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں 90 روز کے اندر انتخابات کروانے کو تیار نہیں، گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کا بیان: میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی، میں الیکشن کی تاریخ کیوں دوں؟ سب کے سامنے ہے، گورنر کے پی کے غلام علی کے بیانات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، سوال ہے کہ کیا یہ گورنرز کا کام ہے؟ یا یہ کام دونوں گورنر صاحبان اپنے طور پر اپنی سمجھ بوجھ سے کر رہے ہیں؟ سارے اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ 9 اپریل کو آپریشن رجیم چینج بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں کامیاب ہوا لیکن یہ سیاسی شکست کا پیش خیمہ بن گیا۔سو انتخابات کے التواء میں ان کو اپنی بقا نظر آرہی ہے حالانکہ ایسی حرکات بہت سارے ایسے آئین سے ماوراء رجحانات کو جنم دینگی جس کا نقصان گھوم گھما کر نام نہاد جہموری سیاسی جماعتوں کو ہوگا، ان نامساعد حالاتکی روشنی میں عمران خان کا موقف درست ہے، حکمران اگر جمہوریت کی آڑ میں غیر جمہوری راہ پر چل رہے ہیں تو اپوزیشن کی جماعت کی حیثیت سے تحریک انصاف کو اپنا آئینی اور جمہوری کردار ادا کرنا چائیے۔ اس کی مثال یوں لیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہو، عمران خان کو لگے کہ وہ انتخابات میں شکست سے دو چار ہونگے، وہ اپنی سیاسی بقاء اور اپوزیشن سے ضد کے پیش نظر انتخابات ہی نہ ہونے دیں اور اپوزیشن سے جو بھی آواز بلند کرے، اس کو گرفتار کر لیا جائے اور گرفتاری کی صورت میں غیر قانونی طریقوں سے اسکی تذلیل کی جائے، تشدد کیا جائے، ایسا کرنے سے کیا ہوگا؟ متعدد مسائل بحران کی شکل اختیار کرینگے مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ برسر اقتدار سیاسی جماعتیں اقتدار چھوڑ کر انتخابات کیلئے تیار نہ ہونگی ۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہی آئین کے غاصب بن جائینگے، جمہوری تقاضے اور آئین اس کی قطعی اجازت نہیں دیتے، موجودہ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتوں کا طرز عمل یہی ہے جب کہ ان کی کارکردگی سے عوام بیزار ہو چکے ہیں، انھوں نے مسائل و بحرانوں کی بھٹی میں جھلستی قوم کی بس کروا دی ہے۔ بے یقینی اور مایوسی کے اس دور میں عوام کی غالب اکثریت عمران خان کو اپنا نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان سمجھ چکے ہیں کہ حکومت نہ تو انتخابات کروائے گی اور نہ ہی انھیں عوام کے شانہ بشانہ احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے دیگی، الٹا مذید فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خوف پیدا کرنے کیلئے ہر طرح کا حربہ اختیار کریگی، لہذا جیل بھرو تحریک کو اس مقصد سے شروع کیا جارہا ہے، تحریک انصاف کے مطابق 40 ہزار سے زیادہ افراد جن میں خواتین بھی شامل ہیں، رضاکارانہ طور پر جیل بھرو تحریک کیلئے اپنے نام پی ٹی آئی کی متعلقہ کمیٹی کو لکھوا چکے ہیں، یہ تحریک حکومت کیلئے بہت بڑا مسئلہ بن سکتی ہے، شرط صرف اس تحریک کی کامیابی ہے، خیال ہے کہ جس طرح کے مناظر عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی خبروں کے بعد زمان پارک میں دیکھے گئے، جیل بھرو تحریک کامیابی ہو جائیگی، جس کے بعد گرفتاری کی شوقین حکومت کو ایک نئی شکست کا سامنا کرنا پڑیگا، پاکستان کے معیشت سے متعلقہ اس وقت تمام مسائل کے ذمہ دار عوام موجودہ حکومت کو دیکھ رہے ہیں، اسکے علاؤہ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد جس طرح حکمرانوں کے تمام کیسزز ختم ہو چکے ہیں، ہر دوسرا شخص سوال کرتا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے بعد انکے تو تمام کیسزز ختم ہوگئے، ملک و ملت کو کیا حاصل ہوا؟ اس طرح کے کئی سوالات عوام کے ذہنوں میں گونجتے ہیں، اب ن لیگ کے اندر بھی اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ سے ہٹانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ اسحاق ڈار کی تمام تر پالیسیوں کا بوجھ ن لیگ کو اٹھانا پڑ رہا ہے، دراصل ن لیگ پنجاب جسے اپنا پاور کیمپ قرار دیتی ہے، اس میں پی ٹی آئی واضح ڈنٹ ڈال چکی ہے، جس کے بعد بقا کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں لیکن شائد کوئی نیا تماشا کارگر ثابت نہ ہو، جیل بھرو تحریک کا بھی سب سے زیادہ نقصان پی ڈی ایم میں ن لیگ کو ہوگا!