گزشتہ دنوں برادرم اقبال حسین اقبال لاہور تشریف لائے تو حیدر خان حیدر کی کتاب ’’جمال فرش و فلک‘‘ بچوں اور نوجوانوں کے لئے ماحولیاتی شعری کا گلدستہ ہدیہ کی۔ جمال فرش و فلک کے نام سے پہلا تاثر یہی تھا کہ گلگت بلتستان کی فطری حسن اور سحر انگیزی کا تذکرہ ہو گا کیونکہ جمالیات کا تعلق حسن اور اس کیفیات و مظاہر سے ہے۔ حسن اور فن کو مجموعی طور پر جمالیات کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ بات بہت سادہ سی دکھائی دیتی ہے لیکن اس سادگی کے بھی ہزار پہلو ہیں۔ جمالیات زمین سے عرش تک، جسم سے لے کے روح لطیف تک، مفاہیم و معانی کا ایک بحر بے کراں۔کیٹس نے کہا تھا۔’’حسین چیز ایک ابدی مسرت ہے‘‘۔ جمال فرش و فلک میںبچوں اور نوجوانوں کو شاعری کا موضوع بنانا ایک انمول تجربہ محسوس ہوا کیونکہ جمالیات کی اپنی ایک بڑی تاریخ ہے۔ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے جانے کتنے تصوّرات پیدا ہوئے ہیں، تصورات تبدیل ہوئے ہیں، مختلف تصوّرات میں مفاہیم کی نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں، خود جمالیات نے جانے کتنی اصطلاحوں کو خلق کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔چرنی شوسکی (Chernyshoiski) نے انسان اور وجود کے رشتے کو سمجھنے کے لیے تمام جمالیاتی کیفیتوں اور رشتوں کو غیر معمولی اہمیت دی۔۔ کسی نے کہا کہ سماجی تبدیلیوں اور انسانی زندگی کی تبدیلی سے جمالیاتی قدریں تبدیل ہو جاتی ہیں، لہٰذا حسن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ کسی نے یہ بتایا کہ حسن قدر نہیں جبلت ہے اور جبلت تبدیل نہیں ہوتی۔ قدروں کی تبدیلی سے حسن کو دیکھنے، اسے محسوس کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا انداز بظاہر جتنا بھی بدل جائے بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ تخلیقی عمل میں باطنی جمالیاتی تجربے یقیناً اہم ہیں، لیکن وہ تجربے خارجی جمالیاتی قدروں کی دین ہے۔ اس لئے حیدر خان حیدر کے اس جمال فرش و فلک کو انوکھا تجربہ کہنا بے جا نا ہوگا ۔ آج کا بچہ کل کا شہری ہے۔جیسا کہ خلیل جبران نے کہا ہے کہ کہ ’’ بچے زمانے کے چھو ڑے ہوئے تیر ہیں نہ جانے کون کہاں جالگے ‘‘بچے کی عمدہ ذہنی تربیت، صحت مند ماحول اور متواز ن شخصیت سازی میں ادب ایک موثر وسیلہ ثابت ہوتاہے۔ خود مصنف کا کہنا ہے کہ بقائے زندگی انحصار ماحول پر ہے جمال فرش و فلک کا مدار ماحول پر ہے بچوں کا ادب تخلیق کرنا بچوں کاکھیل نہیں۔ بچوں کی ذہنی سطح پر اتر کر ان کے لئے ادب تخلیق کران کسی بھی اادیب کے لئے ایک مشکل عمل ہے، وہ خود کو بچہ تصور کئے بغیر یہ امر مہارت سے انجام نہیں سے سکتا۔۔ ایسے ادب کے ذریعہ بچوں میں حیرت اورمسرت کے جذبات پیدا کرنا بچوں کی آنکھوں میں چمک اور ان کے چہروں پر جذبات کی لہروں سے سرخی کے ڈورے ڈالنا بڑے ادیب کا ہی کمال ہے۔بچوں کا ادب پیدا کرنے کے لئے ادیب یا شاعر کو بچوں کی نفسیات کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ وہ ان کی سی سادہ زبان میں لکھنے کی قدرت رکھتا ہو،تب ہی وہ بچوں کی اپچ تک پہنچ سکتا ہے۔ حیدر خان حیدر نے استاد کی حیثیت سے اپنی زندگی بچوں کے لئے وقف کی ۔بچوں سے ان کی محبت اور ان کی تربیت کے لئے ان کی فکر کا اندازہ ان کی شاعری سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی نظم بچے جنت کے پھول پڑھی تو اندازہ ہوا کہ حیدر خان حیدر کے لئے بچے ہی جمال فرش و فلک ہیں۔ بچے ہیں جنت کے پھول ‘ بے شک ہے یہ قول رسولﷺ پیدا ہوئے ہیں فطرت پر‘ سمجھو مت تم ان کو فضول زینت دینا ان سے ہے‘ یہ حقیقت تم نہ بھول ہیں سرمایہ ماں باپ کے‘ کہ مکتب میں ہو مقبول حیدر ان جنت کے پھول کی تربیت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور بچوں کو قوم کی امانت جانتے ہوئے ان کی تربیت پر زور دیتے ہیں۔ ’’بچے قوم کی امانت‘‘ میں لکھتے ہیں: تربیت ان کو مل جائے اگر نیک آخرت کی ضمانت ہیں یہ بچے بچے کی تعلیم و تربیت میں معلم اور کتاب کلیدی حیثیت رکھتے ہیں حیدر خان حیدر کے نزدیک بچے کے لئے کتابیں ہی اس کی جنت ہیں اس لئے ’’کتابیں میری جنت ‘‘میں لکھتے ہیں: مری جنت کتابیں ہیں، مری دولت کتابیں ہیں بہت نازاں ہوں قسمت پر، مری قسمت میں کتابیں ہیں حیدر خاں حیدر نے نہایت خوبصورت پیرائے میں اپنی شاعری کو بچوں کی تربیت کے لئے استعمال کیا ہے دھو لو ہاتھوں کو، دانت صاف کرو اپنے منہ کو بھی تم غلاف کرو حیدر خان کو یہ بھی احساس ہے کہ بچوں کی تربیت دقیق اور فلسفیانہ الفاظ میں نہیں ہو سکتی اس لئے وہ چھوٹے مگر اہم روزمرہ معاملات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ جوتے پالش کرودھلوائو لباس ناخن کاٹو تو نہ ہو جائو اداس حیدر خان حیدر آسان فہم انداز میں اپنی شاعری کے ذریعے بچوں میں فطرت کے حسن کا احساس اجاگر کرتے ہیں اور فلک پوش پہاڑوں پر برف باری کو شاعری کا موضوع بنا تے ہیں۔ اقبال نے ہمیں پیغام دیا تھا کہ کھول آنکھ ،زمیں دیکھ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ لیکن حیدر خان حیدرنے فلک و فضا کے ساتھ زماں و مکاں کو بھی شامل کرکے نسل نو کو مزید آگے بڑھنے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔جمال فرش و فلک کے تقریظ نگاراکبر حسن نحوی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ’’ جمال فرش و فلک کے مطالعہ سے بخوبی اندازلگایا جا سکتا ہے کہ حیدر خان حیدرنے نسل نو کو زندگی کے رموز سے آشنا کرنے کے لئے طبیعت کی بو قلمونیوں پر غور کرنے کی دعوت دی ہے اور مولانا حالی کی طرح انسانیت اور مسلمانوں کو مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘