پاکستان میں جمہوری سیاست میں بار بار کی رخنہ اندازیوں اور اس کی عدم پختگی کے باوجود ملک کی سیاست سے عام شہری کی دلچسپی اور وابستگی حیرت انگیز حد تک بہت زیادہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ دلچسپی اور وابستگی کے باوجود سیاست اور سماج میں جمہوری رویوں کا اتنا ہی فقدان اور کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔سیاسی قائدین ہوں یا سیاسی کارکن ،مذہبی واعظین ہوں یا ان کے مقلدین،صحافی ہوں یا ان کے قارئین سب بحیثیت مجموعی جمہوری رویوں اور اقدار سے انحراف کا شکار ہیں ۔جمہوری سیاسی نظام محض انتخابات کے ذریعہ حکومت کی تبدیلی کا نام نہیں ہے یہ ایک مکمل سماجی اور سیاسی رویوں پر مشتمل ثقافت کی تشکیل کا عمل ہے ایسی ثقافت جس میں تحمل، برداشت، احترام آدمیت، آزادی ء اظہار رائے،قانونی اور سیاسی مساوات نمو پا چکی ہوں۔اقلیتی سیاسی گروہ اکثریتی سیاسی گروہ کی موجودگی میں محفوظ ہو،قانون کی عملداری میں کسی تعصب اور امتیاز کو روانہ رکھا گیا ہو اور انصاف کا حصول سب کے لئے یکساں اور سہل ہو۔جمہوری ثقافت کی تشکیل ایک مسلسل اور تدریجی عمل کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔جمہوری سیاسی ثقافت کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں کا کردا ر اور ان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔ سیاسی جماعتیں جمہوری سیاسی نظام کی خشت اول ہوتی ہیں اگر ان میں جمہوری طرز عمل موجود ہو تو پھر پورا سیاسی عمل جمہوری روایات اور اقدار سے ہم آہنگ ہو کر اس کی ترقی کا باعث بن جاتا ہے۔ بصورت دیگر محض سیاسی جماعتوں میں جمہوری رویوں کے فقدان کے باعث پورا سیاسی نظام ہی بگاڑ کا شکار رہتا ہے۔ا س تناظر میں جب پاکستان میں فعال سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت بلکہ تلخ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں اس بنیادی وصف سے عاری ہیں،جس کے نتیجے میں پاکستان کے سیاسی نظام میں پچھتر سال کے بعد بھی جمہوری ثقافت کی تشکیل ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام ابتدا میں ہی مشکل اور ناموافق حالات سے دوچار رہا۔ بیوروکریسی اور فوج کی مداخلت کے باعث یہ مستحکم نہیں ہوسکا۔ایک غیر یقینی سیاسی ماحول میں،جیسا پاکستان میں ہمیشہ ہی رہا ہے،جمہوری نظام کے قیام اور استحکام کی مشکلات اپنی جگہ اہم بھی ہیں اور درست بھی مگر اس کے باوجود پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور قائدین ،جب جب انہیں موقع ملا،جمہوری نظام کے استحکام کے لئے اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے سے عاجز رہے ہیں ۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت درحقیقت جمہوری سیاسی عمل کے فروغ میں سنجیدہ اور مخلص نہیں رہی۔اقتدار کے حصول کے لئے وہ ہر طرح کا غیر سیاسی اور غیر جمہوری طرز عمل اختیار کرتی رہی ہیں ۔جس کا بھرپور فائدہ بیوروکریسی اور فوج نے اٹھایا۔اقتدار کی سیاست میں ریاستی اداروں کی بڑھتی ہوئی گرفت کے نتیجے میں سیاست دانوں کا انحصار اپنی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور کارکردگی کے بجائے ان اداروں کی حمایت اور رضامندی پر ہو کر رہ گیا جس سے سیاسی جماعتوں کی اہمیت ثانوی ہو کر رہ گئی ۔ ابتدائی گیارہ سالوںمیں ( 1947 سے 1958 ) پاکستان میں جو سیاسی انتشار اور بد نظمی رہی اس میں دیگر عوامل کے اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا کمزور پہلو سب سے اہم تھا۔جسے سیاست دان اس کے بعد کے زمانوں میں بھی سیاسی حالات پر دسترس رکھنے کے باوجود تبدیل نہیں کرسکے۔ 1972 سے 1977 کے دورانئے میں ذوالفقار علی بھٹو کو یہ موقع ضرور حاصل ہوا تھا جب سیاسی نظام پر انکی گرفت مضبوط تھی مگر وہ بھی بوجوہ اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو مضبوط سیاسی تنظیم میں نہ ڈھال سکے۔ ان کے اقتدارکے دورانئے میں بھی حکمرانی کا مزاج جمہوری اور جماعتی کے بجائے شخصی حاکمیت پر استوار رہا ۔ 1988 سے 2018 کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز صوبوں اور وفاق میں اقتدار حاصل کرتی رہیں مگر نہ تو حکمرانی کا مزاج تبدیل ہوا اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی ساخت اور کارکردگی کو جمہوری طرز پر استوار کیا جاسکا۔2018 کے بعدپاکستان تحریک انصاف کو عمران خاں کی شخصی مقبولیت کے باعث وفاق اور صوبوں میں کامیابی حاصل ہوئی تاہم وہ بھی اپنے اقتدار کے دورانئے میں اپنی سیاسی جماعت کو اہمیت دینے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی توجہ اور حمایت پر انحصار کرتے رہے ۔ ا قتدار کے لئے سیاسی جماعت کے بجائے غیر سیاسی قوتوں پر انحصار کے نتیجے میں آج بھی سیاسی ادارے ( پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں ) پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں کمزور حیثیت کے حامل ہیں۔پچھتر سال کے سیاسی اور غیر سیاسی مسافت کے بعد بھی پاکستان میں سیاست دان اس بات کو سمجھنے سے عاجز ہیں کہ سیاست میں ان کا وقار اور کلیدی کردار اس وقت تک انہیں نہیں مل پائے گا،جب تک وہ سیاسی جماعتوں کو اور کارکنوں کو اہمیت نہیں دینگے۔سیاسی جماعت کو اقتدار کی بنیاد اور کارکنوں کو اپنا اثاثہ سمجھے بغیر سیاسی نظام میں سیاست دانوں کی اہمیت اور حیثیت کمزور ہی رہے گی۔اس بات کا تذکرہ تو بہت عام ہے کہ سیاسی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا دخل ہے اور وہ سیاسی نظام کو تسلسل سے جاری رکھنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے مگر کیا اس بات پر بھی کبھی توجہ دی گئی ہے کہ اس کا سد باب اور تدارک کیسے ہو۔محض واویلا کرنے اور شکووںسے تو صورت حال تبدیل ہونے سے رہی۔سیاسی نظام میں سیاست دانوں کو اہمیت اور اقتدار پر گرفت تب ہی حاصل ہوگی جب وہ سیاسی جماعتوں کو تنظیمی اعتبار سے مستحکم کرینگے اور سیاسی کارکنوں کو فیصلوں میں شریک ہونے کے بھرپور مواقع فراہم کریں انہیں سیاسی اثاثہ سمجھتے ہوئے ان کی قدر کی جائے اور جماعت کی قیادت کے لئے انہیں بھی آگے آنے کا راستہ دیا جائے ۔ جمہوری سیاست کے وقاراور تسلسل کی کلید ہی اسی میں ہے کہ سیاسی جماعتوں میں قیادت کا تربیتی عمل جاری رہے۔ دوسری جانب سیاسی کارکنوں کو بھی اپنی اہمیت کا سمجھنا ضروری ہے ۔وہ سیاسی جماعت میں کسی نظریئے ،مقصد اور شہری حقوق کے تحفظ کے لئے شامل ہوتے ہیں جس کے لئے اقتدار کا حصول ابتدائی ہدف ہوتا ہے آخری نہیں۔سیاسی جماعت اور کارکنوں کی اصل آزمائش اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہی آتی ہے جب اسے اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ اسی مرحلے میں قیادت کا اخلاص اس کی اہلیت اور سیاسی دانائی آشکار ہوتی ہے ۔اور یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب سیاسی جماعت کا کارکن اقتدار کے دوران اپنی قیادت کے غیرجمہوری رویوں اور یک طرفہ فیصلوں پر گہری نظر اور گرفت رکھے اور جماعت کے پلیٹ فارم پر اس کی نشاندہی کرے ۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان کے سیاسی ماحول میں اس کی روایت نہیں رہی یا اگر کبھی ایسا ہوا بھی ہے تو اس کی واقعیت استثنائی ہی رہی۔اس کے برخلاف ہوتا یہ آیا ہے کہ سیاسی کارکن اقتدار کی سحر انگیزیوں سے متاثر ہو کر محض قیادت کی خوشنودی کے لئے اور کچھ مراعات اور وقتی مفادات کے حصول کی خاطر اس کے ہر فیصلے اور اقدام کی حمایت پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ سیاسی کارکنوں کا یہ طرز عمل قیادت میں غیر جمہوری مزاج کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا ہے ۔ سیاسی کارکنوں کی بنیادی ذمہ داری اور آزمائش جماعت کے اقتدار کے دوران ہی شروع ہوتی ہے بد قسمتی سے پاکستان میں اس سے اتنا ہی اغماض برتا جاتا ہے ۔جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں میں غیر جمہوری رویوں کا چلن پختہ ہو جاتاہے۔ اور سیاسی حکومتیں اپنے بنیادی ہدف ، یعنی جمہوری اصولوں کے مطابق ایک اچھی اور شفاف طرز حکمرانی ، سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔جمہوری حکومتوں کی کامیابی کا انحصار سیاسی جماعتوں میں قیادت اور کارکنوں کے جمہوری طرز عمل پر ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں جس کے امکانات ابھی تک روشن نہیں ہوسکے ہیں۔ ا مید تو بحر حال رکھی جانی چاہیئے سو وہ اب بھی باقی ہے !!