جمہوریت کا سب سے بڑا حسن یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے اقتدار کے دوران عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرے تو آئندہ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اسے مسترد کر دیتے ہیں اور اس طرح سے پے در پے قائم ہونے والی حکومتوں کی کارکردگی کی بنا پر عوام اپنی اور ملک کی ترقی کا راستہ بنا لیتی ہیں، دنیا کے ہر مضبوط جمہوری ملک کی تاریخ اس حقیقت کی عکاس ہے مگر پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہر حکومت کو پہلے اپنی مدت پوری نہ ہونے کا جواز حاصل تھا کہ ہمیں قدم جمانے کا پورا موقع نہیں ملا جس کے باعث پوری طرح ملک و قوم کی خدمت کرنے کے اقدامات ادھورے رہ گئے، 2008 کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اپنے وزراء اعظم کے پانچ سال مکمل نہ کرنے کا جواز حاصل ہوا جبکہ یکایک پی ٹی آئی کو پانچ سال حکومت مکمل نہ ہونے کا جواز ملا، جسے پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت کی صورت میں شہباز شریف نے استعفیٰ نہ دیکر انتخابات کی جانب نہ بڑھتے ہوئے طوالت دی، اس بات کا اعتراف نواز شریف کر چکے ہیں کہ دھمکیوں میں آ کر مستعفی نہیں ہوئے حالانکہ شہباز شریف کا استعفیٰ میں نے بھی پڑھا تھا، پی ڈی ایم حکومت کا پراجیکٹ ملک و قوم کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا اور 16 ماہ سیاہ رات طاری رہی، پی ڈی ایم کی چاہ اقتدار نے وطن عزیز کو ایک ایسے بحران میں دھکیل دیا جس کے بعد ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ملک عدم اعتماد کی رات سے آگے نہیں بڑھ سکا جبکہ انتخابات آئینی مدت کے تحت نہیں ہوسکے اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت پر 8 فروری 2024 کی تاریخ طے ہوچکی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا 41 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ سامنے آچکا ہے، جس پر کل کے کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں، تاہم انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے کی ملک کے طول و عرض میں گونج جاری ہے، سیاسی جماعتوں کے علاوہ عام پاکستانی اپنے گھروں، دفاتر اور دیگر مقامات زندگی پر یہ کہتا سنا جاتا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے، پی ٹی آئی کو شاید انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائیگا، فلاں جماعت ہارے گی، فلان جیتے گی اور فلاں نے ہی وزیر اعظم بننا ہے، زبان خلق نقارہ خدا کہلاتی ہے، سو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کھل کر اس بابت گرج برس رہے ہیں۔ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوا کرتی، ماضی میں آصف علی زرداری ایک زرداری سب پر بھاری کے نعروں پر' پر مسرت انداز میں کہتے رہے ہیں کہ فلاں معاہدہ یا فلاں بات قرآن و حدیث نہیں۔گذشتہ روز بھی آصف علی زرداری نے ایک انٹرویو میں بلاول کو انڈر ٹریننگ قرار دیا اور کہا کہ تجربہ بہرحال تجربہ ہوتا ہے، آصف علی زرداری کی بات اس تناظر میں کہی گئی کہ بلاول سیاست میں بابوں کو گھر پر اللہ توبہ کرنے اور مدرسوں میں بچوں کو پڑھانے کے مشورے تواتر سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ہذا بلاول بھٹو زرداری کے اچانک دبئی روانہ ہو جانے کو رائے کا پہاڈ بنا دیا گیا ہے، بتایا گیا کہ بلاول بھٹو کی اچانک دبئی روانگی پر آصف زرداری نے بھی دبئی جانے کا فیصلہ کر لیا، جبکہ بلاول بھٹو کسی کو بتائے بغیر دبئی جا چکے ہیں، پیپلزپارٹی نے آصف زرداری اور بلاول بھٹو میں اختلافات کی تردید کی ہے، ترجمان پی پی شازیہ مری نے کہا کہ پارٹی میں ہر کسی کا اپنا مؤقف ہوتا ہے، متفق نہ ہونے کا مطلب ہر گز نہیں کہ اختلافات ہیں، بلاول کو تفویض کیے گئے سیاسی کردار پر لگتا ہے کہ اب زرداری صاحب اور بلاول دونوں نے چند روز دبئی میں آرام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بلاول اور آصف علی زرداری میں اختلافات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دونوں باپ بیٹا اپنے ووٹرز اور کارکنوں کا ہر دو اعتبار سے لہو گرم رکھنے میں مگن ہیں اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے کیساتھ اپنی سیاسی ساکھ بھی بچانے میں مصروف عمل ہیں ۔ نواز شریف اندرون سندھ اور زرداری پنجاب میں زور آزمائی کیلئے ہر وقت تیار ہیں لیکن ملک میں حقیقی معنوں میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا فقدان ہے اور شاید انتخابات کے بعد بھی سیاسی جماعتیں عوام کو جمہوریت کی یاد دلا رہی ہوں، لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے کا محاذ اتنا گرم ہوچکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنیکی ہدایت کی ہے، الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز کو خط لکھ کر سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی، خط کے مطابق ایک سیاسی جماعت نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سیاسی جماعت نے کہا کہ نگران حکومتیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دے رہیں، نگران وزیر داخلہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالتوں کا لاڈلہ قرار دے دیا اور کہا کہ جیل قید میں ایسی سہولت کسی سابق وزیراعظم کو نہیں ملی، جیل میں انھیں ملنے والی سہولتوں کا عام شہری سوچ بھی نہیں سکتا، قید میں ایسی سہولت ماضی میں کسی سابق وزیر اعظم کو نہیں ملی، ن لیگ کے حوالے سے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ن لیگ کو کوئی ’’فیور‘‘ نہیں دی جارہی، نوازشریف پر زیادہ کیسز بے بنیاد تھے، نگران حکومت کیلئے سب برابر ہیں، بلاول اور نواز دونوں قابل احترام ہیں، پی پی کے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے پر نگران وزیرداخلہ نے کہا کہ ذکا اشرف پی پی کے لاڈلے ہیں اور اب بھی کرسی پر موجود ہیں، لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہوتی تو ذکااشرف کوہٹاچکے ہوتے، وزیر اعظم کی اسلام آباد ہائی کورٹ طلبی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر عدالت اگر چھوٹے معاملات پر انہیں بلائے گی تو یہ ایک مناسب عمل نہیں، پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد دنیا میں سب سے کم ہے، نگران وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد فیصلہ آپ اپنے ذہن سے خود ہی کر لیں۔