منتخب وفاقی حکومت کی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے نئی مردم شماری کی توثیق کے بعد حلقوں کی نئی حد بندی لازمی ٹھہری۔ الیکشن کمیشن پاکستان نے اس بات کی ساتھ ہی وضاحت کر دی کہ حلقہ بندیوں کے کام میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت لگتا ہے جو نگران حکومت کو آئینی طور پر حاصل ہے۔ اس سے ان خدشات کو مہمیز ملی کہ انتخابات میں چند ماہ کی ممکنہ تاخیر ہو سکتی ہے۔پیپلز پارٹی جو مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ کرنے والوں میں شامل تھی ،اس نے کروٹ بدلی اور اعلان کر دیا کہ اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی الیکشن میں تاخیر کی مخالفت کرے گی۔اب کئی روز سے پیپلز پارٹی خاموش ہو چکی ہے،صرف زرداری صاحب کو بیان وقفے وقفے سے شائع ہوتا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی مخالفت نظر آتی ہے۔ چند روز گزرے جب الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں مکمل ہونے کی خبر دی،پھر اعتراضات طلب کئے تاکہ قانونی اور انتخابی ضابطے میں کہیں کمی رہ گئی ہو تو اسے پورا کیا جا سکے۔مردم شماری کی توثیق کے بعد، ای سی پی کے سامنے ایک مشکل کام ملک بھر میں کم از کم دو کروڑ نئے ووٹرز کا حساب لگانا تھا، جس سے اس بات پر اثر پڑے گا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کو اس وقت کس طرح تقسیم کیا گیا ہے، کچھ علاقوں میں نشستیں کم ہو رہی ہیں اور دوسرے علاقوں کی نشستیں بڑھ رہی ہیں۔مزید برآں، ووٹروں کی آبادی میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم کچھ حلقوں کو ’ایڈجسٹمنٹ‘ کے لیے دوبارہ تریب دینا پڑے گا چاہے اس کا مطلب ان کی تعداد یا گروپ بندیوں میں تبدیلی ہو۔ حلقہ بندی کسی ملک کے کل رقبے کو چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرنے کا عمل ہے تاکہ انتخابات کو آسانی سے اور مؤثر طریقے سے کرایا جا سکے۔یہ جمہوری عمل کے تسلسل کی کڑی ہے۔جمہوریت کا اصل نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی ہو۔ چونکہ ملک بڑے ہوتے ہیں، بعض اوقات بڑے بڑے ادارے بھی، اس لیے پورے انتخابی علاقے پر ایک اکائی کے طور پر ایک ساتھ رائے شماری کرانا ممکن نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ کل رقبہ جس پر انتخابات کرائے جانے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ علاقہ کاٹنے کا طریقہ کار بالکل وہی ہے جو حد بندی ہے، اور اس کے نتیجے میں حلقے بنتے ہیں۔یہ حلقے یوسی، صوبائی حلقہ اور قومی اسمبلی کا حلقہ ہو سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن پاکستان عام طور پر حد بندی کمیٹیاں تشکیل دیتا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP)، آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت تشکیل کردہ ایک انتخابی نگران ادارہ ہے، جسے آئندہ عام انتخابات کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر حلقوں کی حد بندی کا کام سونپا گیا ہے۔ ای سی پی، الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق، ہر مردم شماری کے بعد اور پولنگ کے مقررہ دن سے کم از کم چار ماہ قبل حد بندی کا عمل شروع کرنے کا قانونی طور پر پابند ہے۔سیاسی بیان بازی یا تنازعات اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے کہ حلقہ بندیاں ایک خاس طریقہ کار اور وقت کے دوران ہونا ضروری ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں شفافیت کی حتی المقدور کوشش کی جا سکے۔ حد بندی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک انتخابی رقبہ کو مساوی آبادی والے حلقوں میں تقسیم کرنا ہے (10 فیصد تبدیلی کی اجازت ہے) لیکن چونکہ ای سی پی ایک انتخابی نگران ہے اور شماریاتی مرکز نہیں ہے، اس لیے الیکشن ایکٹ 2017 ای سی پی کو پاکستان بیورو آف شماریات کی طرف سے کی گئی آخری مردم شماری کی حتمی رپورٹ پر انحصار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ جغرافیائی طور پر گنجان آباد علاقوں میں آبادی کی تقسیم مشکل کام ہوتا ہے ۔انتظامی اکائیوں کی موجودہ حدود، مواصلات کی سہولیات ، ووٹروں کی تعداد اور ووٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے سہولت اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ قانون کا تقاضہ ہے کہ حلقوں کی حد بندی اس طرح کی جائے کہ ہر حلقے میں اوسطاً کسی حد تک برابر افراد ہوں۔اس سے ہر شخص کے ووٹ کو مساوی طاقت اور نمائندگی ملتی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ شہری ہو یا دیہاتی۔ ای سی پی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ آبادی والا حلقہ این اے 35 بنوں ہے، جس کی آبادی 1,167,892 ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان کے حلقہ این اے 262 کچھی جھل مگسی کی آبادی صرف 386,255 ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ضلع بنوں میں تقریباً تین ووٹوں کو وہی طاقت دی گئی ہے جو کچھی جھل مگسی میں 1 ووٹ کو ہے۔ دوسرے لفظوں میں، بنوں میں ایک ووٹ کی قدر، پارلیمنٹ میں نمائندگی کے لحاظ سے، کچھی جھل مگسی کے ووٹ کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔ یہ فطری ہے کہ 2023 کی مردم شماری کے بعد نئی حد بندی پہلے والی حلقہ بندیکو بدل سکتی ہے ۔ پاکستان کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، آبادی 2017 میں 207.68 ملین سے 2023 میں 241.49 ملین ہو چکی ہے۔ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے غیر متنازع الیکشن کے لئے حلقہ بندی ضروری ہے۔آبادی والے شہری علاقے اور کم آبادی والے دیہی علاقے اس کے ذریعے اپنے نمائندے پارلیمنٹ میں بھیج سکتے ہیں۔ وطن عزیز میں سیاسی جھگڑے بسا اوقات معمول کے کام کو متنازع بنا دیتے ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری اقدار مستحکم نہیں کر سکیں،مزید ستم یہ کہ وہ ریاست کے ان اداروں کو بھی جھغرے میں گھسیٹ لیتی ہیں جو صرف جمہوری نظام کو جاری رکھنے میں معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے دیگر معاملات سے الگ رہ کر حلقہ بندیوں کے کام کا آئینی مدت میں مکمل ہونا خوش آئند ہے۔سیاست دان اپنی لڑائی نمٹاتے رہیں گے ریاستی اور جمہوری اداروں کو اپنا کام کرتے رہنا چاہئے۔