عزت وقار سے زندہ رہنے کی ایک لگن ہمیشہ ان میں باقی رہی۔بہترین مرتب، بے حد محنتی، متجسس، یکسو، ضابطہ پسند اور منطقی آدمی تھے۔ ٹی وی سکرین پر نمودار ہونے کے بعد شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔حمد، نعت، غزل و نظم،‘ قصیدہ و مرثیہ ،مسدس و خمس ،ہجو وہزل میں وہ ہر فن مولا تھے۔تلفظ کی صحت ،الفاظ کا استعمال ، فقروں کی آرائش، لہجہ کی رونق،بیان کی رنگینی،احساس کی گہرائی، تخیل کا علو اور ذہنوں پر فتح مندی کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا، کے مصداق ۔انہوں نے بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا: فن کا پرستار ذلیل نہیں ہوتا، چاہے سارا زمانہ اس کے خلاف ہو جائے۔باطل کا پیرو کار کبھی عزت نہیں پاتا،چاہے چاند اس کی پیشانی پر نکل آئے۔ ہمارے ہاںآتش فشاں مقرروں کی لمبی فہرست ہے۔ جذبات کے بہائو میں مخالفین پر پھبتیاں کسنا،جن کا شیوا ہے۔وہ ایسے خطیبوں کو بھی پروگرام میں بلا کر سوچ سمجھ کر نطق کرنے کا سلیقہ سکھاتے تھے ۔بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔عالم دین نہ ہونے کے باعث خطاب میں اس سے کئی بار غلطیاں بھی ہوئیں مگر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں کتاب’’مقدمہ سیدہ عائشہؓصدیقہ ‘‘لکھ کر ناقدین کو ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا ۔اگر آپ کتاب کا دیباچہ پڑھ لیں تو کہیں گے، بخشش کے لیے یہ کتاب ہی کافی ہے۔ دیباچہ انہوں نے سیدہ کائنات کی قبر اطہرکے پاس قدموں کی جانب جنت البقیع میں بیٹھ کر لکھا ۔میری محترم و مکرم امی جان! میں جنت البقیع کے احاطے میں اپنے چشم تصور کی حد عقیدت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔اس کے بعد سیدہ کائنات کے محاسن و خوبیاں تحریر کیں۔ آپ کے اظہار کا طریق ،اسلوب کا رنگ، الفاظ کا چنائو ،معانی کا جمائو ،سلاست کا نکھار سب سے الگ تھلگ تھا۔ کسی بھی تحریر و تقریر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سامع اور قاری کے لئے بوجھل نہ ہو۔کسی مرحلے پر دماغ تھکاوٹ محسوس نہ کرے۔ بلکہ یوں محسوس کرے کہ وہ اس میں ڈوب چکا ہے عالم آن لائن پروگرام کی بھی یہی خوبی تھی۔پورے کا پورا خاندان جڑ کر بیٹھ جاتا تھا۔کتاب بھی منفرد ۔ عظیم دانشور نے کہا تھا :عظمت صرف ایک فیصدو دیعت کی جاتی ہے اور 99فیصد محنت، ریاضت سے ملتی ہے۔ وہ ایک بگولا تھے۔ ہر فن مولا۔ کالم نگار، مصنف، صحافی و تجزیہ نگار، اینکر پرسن ، سیاستدان، اسکرپٹ رائٹر، پروڈیوسر۔ ہر جگہ محنت سے نام کمایا۔ ندائے ملت سے صحافت کا سفر کیا۔ان کے کالم سے بھی ایک تحریک پیدا ہوتی تھی۔الفاظ کے چنائو اور کثرت مطالعہ کے باعث قاری اس میں ڈوب جاتا تھا۔الیکٹرانک میڈیا میں قدم رکھا تو چھاتے چلے گئے ، رمضان ٹرانسمیشن میں نئی جہتیں متعارف کرائیں۔شروع دن کے ساتھی عزیزم علی امام جو پروڈیوسر سے بڑھ کر چھوٹے بھائی تھے۔وہ کہتے ہیں کہ نعت سے لے کر خطاب تک ہر قسم کا اپنا پروگرام ہوا کرتا تھا۔محترم مفتی عبد القادر دینی پروگرام میں معاون تھے۔ دونوں ہی نے ایک لمبا عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ ہر ایک ان کی ریاضت کا معترف ۔ 90کی دہائی میں ایم کیو ایم جوائن کی، وہ اے پی ایم ایس او کے سرگرم کارکن رہے۔ خدمت خلق فائونڈیشن میں خدمات سرانجام دیں۔2002ء میں ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ،شوکت عزیز کابینہ میں وزیر مذہبی امور رہے۔تین بار دنیا کی 500اسلامی شخصیات کی فہرست میں نام آیا۔2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے ۔ہر آدمی کی طرح انھیں بھی عمران خاں سے کئی شکوے تھے۔عمران خاں کی اپنی ہی ایک انجمن ہے ۔اسی بنا پر وہ کسی کی زیادہ آئو بھگت نہیں کرتے۔یہاں تک کہ وہ کسی کی غمی اور خوشی میں بھی کم ہی شریک ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں یہ ناکامی کی پہلی سیڑھی ہے۔اگر عمران خاں نے اس رویے پر نظر ثانی نہ کی تو مستقبل کی سیاست مخدوش۔ غلطیوں سے پاک صرف نبیؐ کی ذات ہے۔ باقی ہر کوئی خطاکا پتلا ۔وہ بھی ایک انسان تھا، بشری تقاضوں کے مطابق گناہ سرزد ہوئے۔ مرنے کے بعد اللہ اور بندے کا معاملہ ہوتا ہے۔اس کی زندگی کو چوکوں،چوراہوں،دفتروں اور سوشل میڈیا پر موضوع گفتگو بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ مرنے کے بعد انسانی محاسن کو اجاگر ‘ غلطیوں کی پردہ پوشی کی جائے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایک بھر پور زندگی گزاری۔ایسی زندگی جس کی ہر ذی روح تمنا کرتا ہے۔یہ بھی ضرور ی نہیں کہ انسان ہر شعبہ زندگی میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔میڈیائی زندگی میں ان کی کامیابی قابل تقلید ،عائلی زندگی میں بے شمار خامیاں۔ ان کی گھریلو زندگی کے مختلف پہلو ہیں مگر انہوں نے ذاتی طور پر انہیں میڈیا کی چوپالوں کا موضوع نہ بنایا،پہلی زوجہ نے اختلاف پر راستہ بدل لیا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے فہم کے مطابق نئی قافلہ بندی کی۔ ان کا خمیر ایسی مٹی سے اٹھا تھا کہ وہ کسی ایک جگہ ٹھہرنے والے نہ تھے۔انہوں نے ٹی وی پر اپنے عہد کے ہزاروں نوجوانوں کے دلوں میں ایک صبح نو کی جوت جگائی۔ آج ٹی وی پر جو بھی اسلامی پروگرام نظر آتے ہیں، ان کے بانی وہی تھے۔ اسلامی پروگرام کا ہر اینکران کا لباس، لہجہ اور اسلوب اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔انہوں نے اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں ،انتھک محنت و ریاضت ، زبردست لگن سے کھری اور دو ٹوک بات کہنے کا انداز اپنایا تھا۔غلطی کہاں ہوئی ؟ حضرت لقمانؑ کا قول ہے: جو بات دشمن سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو ۔دوست سے بھی پوشیدہ رکھو ،مبادا وہ بھی کسی دن دشمن ہو جائے۔کاش! وہ اس قول پر عمل کرتے ۔انھوںنے آخری وقت میں نہ صرف توبہ کی بلکہ رو رو کر سب سے معافی مانگی ۔کہا جاتا ہے ،ننانوے راست بازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے، ایک توبہ کرنے والے گنہگار کی بابت آسمان پر زیادہ خوشی ہو تی ہے۔یقیناتوبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے رحم کا معاملہ فرمایا ہو گا۔یہ دنیا فانی ہے، ہر کسی نے کوچ کرنا ہے ۔لیکن اچانک موت کانشتر زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مولانا آزادؒ نے کہا تھا:میں نے لوگوں کے عیب چننے کے بجائے ہمیشہ ان کی خوبیاں تلاش کی ہیں ۔ جو لذت حُسن تلاش کرنے میں ہے، وہ کسی اور چیز میں نہیں ،محاسن کی ڈھونڈہی سے آدمی اپنے محاسن کو بڑھا اور چمکا سکتا ہے ۔آئو آج عہد کریں۔مستقبل میں کسی کی عیب جوئی سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں گے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا