چوپیہ رام پور گائوں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے شوہر اروند گائوں کے مکھیا ٹھاکر کے صاحبزادے ہیں۔ ماتھے پر بندی سجائے اور ہندوانہ ڈریس میں ملبوس امیشا نے رپورٹر کو بتایاکہ جب وہ 13سال کی تھی تو ٹھاکروں نے اسکو گھر سے اٹھا کر اغوا کیا۔ یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پروپیگنڈہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔بھارت میں مذہبی منافرت ابھارنے کا کام نہایت منظم انداز میں ہو ا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھ ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں معصوم ذہنوں کو مذہبی لحاظ سے مسموم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی گئی۔ یہاں سے فارغ ہونے والے بچے متعصب نہیں ہوں گے تو کیا ہوںگے؟ ایسے اداروں سے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک بھارتی میڈیا میں بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ کانگرس نے 2003ء میں شملہ میں منعقد کیے گئے اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ ملک سے مذہبی منافرت پر مبنی مواد ختم کرنے کے لئے کام کرے گی‘ لیکن دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کر سکی۔2014میں کشمیر میں انتخابات کی کوریج کے دوران میں نے دیکھا کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقہ چناب ویلی میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے ورکروں نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔ کارپوریٹ اور دیگر سینکٹروں اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لیکر دیہاتوں میں رات دن ہندوتوا کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔ مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر عالیشان رام مندر کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے اور ووٹ بٹورنے کیلئے آر ایس ایس کا نشانہ اب1991کا عبادت گاہوں کا قانون ہے، جس کی رو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ عبادت گاہوں کی1947والی حیثیت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کو کالعدم کرانے کے مطالبہ میں تیزی آنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لئے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے قضیہ کو ہوا دی جار ہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ بنارس کی اس مسجد کے بارے میںمورخوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی کے بعد واپسی پر جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑائو ڈالا تو اسکے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کیلئے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانہ کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا تو اسکے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتہ چلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اسکے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ کیس کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اسکے اوپر مندر کو ازسر نو تعمیر کرادیا ۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی ۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔ بھارت کے مشہور دانشور اور معروف صحافی سعید نقوی نے چند سال قبل شائع ہوئی اپنی کتاب Being the Other میں لکھا تھا کہ وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔اتر پردیش کے حالیہ صوبائی انتخابات کور کرنے والے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کے بجائے سکیورٹی کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔ کتاب کے مطابق بھارتی مسلمان ایک ٹرائنگل (مثلث) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اسکے تین ضلع کچھ اس طرح ہیں، ہند۔مسلم، بھارت ۔پاکستان اور کشمیر ۔ ان تینوں کو حل کئے بغیر مثلث کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔مگر پاکستان سے اگر صلح ہوجائے تو ہندو انتہا پسندوں کے پاس سیاست کرنے کیلئے ایشو ختم ہوجائے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ’’سیکولر ‘‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ اس کی حرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے جس پر ہندو قوم پرستی تعمیر کی جارہی ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکائتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منھ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’’فرقہ پرست‘‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔حال یہ ہے کہ پچھلے چار سالوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل شہشاہ اکبر کا بسایا ہوا الہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے، فیض آباد ایودھیا ہو گیا ہے۔ ہریانہ کا مصطفٰے آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے۔ احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیر محسوس طریقے سے 15 ویں صدی کے اواخرکے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔ مسلمانوںکی سیاسی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لئے اسے ان کی کوئی پروا نہیں، اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20 کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے؟