بھارتی ریاست کرناٹک میں بی جے پی کی قیادت والی سنگھ پریوارجو سنگھی بریگیڈ کہلاتاہے کی طرف سے عفت مآب مسلم خواتین کے حجاب کوہدف بنانے پراضطراب بدستور موجود ہے کہ اسی دوران24فروری 2022کوسکھ لڑکیوںکو’’پگڑی‘‘پہننے پر نیا تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ریاست کرناٹک میں ہی سلیکون ویلی کے نام سے مشہور بنگلور کا ہے جہاں مائونٹ کارمل کالج کی انتظامیہ نے ایک سترہ سالہ سکھ طالبہ امیتیشور کور کو کلاس میں بیٹھنے کے لیے مخصوص مذہبی’’پگڑی‘‘ اتار نے کوکہا۔ کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دراصل یہ آرڈرچونکہ کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے جاری ہواہے اس لئے وہ ا س پر عمل درآمد کرانے پر پر مجبور ہیں۔پگڑی پرنئے تنازع پرسکھ طالبہ کے والد گرچرن سنگھ کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے ان کا پورا خاندان صدمے میں ہے کیونکہ سکھ لڑکیوں کے لیے مخصوص پگڑی’’امرت دھاری‘‘ پہننا ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔ گرچرن سنگھ نے سکھوں کی مقامی تنظیم شری گرو سنگھ سبھا کو ایک خط لکھ کراس معاملے کی تفصیلات بتائی ہیں۔ انہوں نے بتایا،انکی بیٹی امیتیشور کور، کالج میں سیکنڈیئر کی طالبہ ہیںاور وہ کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر بھی ہیں۔ کالج کے حکام نے انہیں طلب کیا اور کہا کہ وہ اپنی مذہبی’’پگڑی‘‘ اتار دیں اور اس کے بعد ہی کالج آئیں۔ لیکن ان کی بیٹی نے یہ نادر شاہی حکم ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ ایک امرت دھاری سکھ ہے۔سکھ طالبہ امیتیشور کورکے والدگرچرن سنگھ کا کہنا تھا کہ کرناٹک حکومت کو اس معاملے کی وضاحت کرنی چاہئے کہ اقلیتوں کوجبرحصار میں گھیرنے پرکیوںمصر ہے۔ ایک طرف مسلمان طالبات کو پہلے ہی حجاب پہننے سے منع کیا جارہا ہے اوراب سکھ طالبات پر ان کے مذہبی اموراپنانے سے منع کررہی ہے جس کی مثال ان کی بیٹی ہے جس سے سختی کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی پگڑی ا تار دے۔انہوں نے کہاکہ ان کی بیٹی سے اس کی پگڑی اتارنے کے لیے کہنا نہ صرف ایک سکھ کی بلکہ پوری سکھ برادری کی سخت توہین ہے۔ اگرکالج انتظامیہ نے یہ فیصلہ واپس نہیں لیاتواس پر پورے بھارت میں سکھ اٹھ کھڑے ہونگے اور ان کی طرف سے احتجاج شروع ہوجائے گاجو شدت اختیار کرسکتا ہے۔ مائونٹ کارمل کالج میں سیکنڈ یئرکی سکھ طالبہ امیتیشور کورکے والد گرچرن سنگھ جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پیشے سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ دستار سکھ مذہب کا لازمی حصہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مسلم لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ ہیں جو اپنے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اپنا سر ڈھانپنا یا حجاب پہننا چاہتی ہیں۔ان کاکہناہے کہ وہ اورانکی کیمونٹی کالج انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مسلم طالبات کوحجاب کرنے کی اجازت دیں کیونکہ اس سے کسی دوسرے کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ گوکہ سکھ مردوں کے لیے پگڑی پہننا سکھ مذہب کا لازمی جز ہے تاہم سکھ خواتین بالعموم پگڑی نہیں پہنتیں۔ البتہ ایسی سکھ خواتین جو اپنی پوری زندگی سکھ مذہبی ہدایات کے مطابق گزارنے کا عہد کرتی ہیں یا بپتسمہ لیتی ہیں، انہیں’’ امرت دھاری ‘‘کہا جاتا ہے اور ان کے لیے پگڑی پہننا ضروری ہوتا ہے۔ سکھ خواتین جو پگڑی پہنتی ہیں انہیں دستار یا دومالہ بھی کہتے ہیں۔گوکہ تاریخی طور پر یقین سے یہ کہنا مشکل ہے کہ سکھ خواتین نے کب سے دستار پہننا شروع کیا تاہم سکھ ازم کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے بعض ماہرین کے مطابق دستار پہننے والی پہلی سکھ خاتون ماتا بھاگ کور تھیں،جو مائی بھاگو کے نام سے بھی معروف ہیں۔ وہ سکھوں کے آخری گرو گوبند سنگھ جی کی فوج میں شامل تھیں۔ کرناٹک کے مائونٹ کارمل کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ بہرصورت کرناٹک ہائی کورٹ کے آرڈرکی پابند ہے۔کالج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہاسکھ لڑکیوں کا پگڑی پہنناکالج میں اب تک کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اور کالج کی طرف سے آج تک کسی سکھ طالبہ کو پگڑی اتارنے پر کبھی نہ تو مجبور کیا اور نہ ہی کسی کو کلاس سے باہر بھیجامگرجونہی16فروری 2022کو کالج کھل گیاتوکالج کوہائی کورٹ کایہ آڈر مل گیاتو کالج انتظامیہ نے تمام طلبہ کو ہائی کورٹ کے حکم سے آگاہ کردیا۔ اس سے قبل سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔واضح رہے کہ گذشتہ ماہ کرناٹک کی حکومت کے محکمہ تعلیم کے ایک اعلی افسر نے کالج کا معائنہ کیاتواس دوران انہوں نے مسلم طالبات کوحجاب پہنے ہوئے دیکھا تو انہیں مذہبی علامت حجاب پہن کر کالج آنے پرروک لگادی گئی اورپھر پورے کرناٹک میں احتجاج ہوا جس پر کشیدگی کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ اس سے قبل بھارتی ریاست کرناٹک کے کالجوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ حجاب کے ساتھ کلاسوں میں شرکت کی اجازت سے انکار کے حوالے سے مظاہروں کا دائرہ کافی وسیع ہورہا ہے۔ حجاب کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب پی یو ایجوکیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جی سری رام نے، جو پریکٹیکل امتحانات کے دوران کالج کا معائنہ کر رہے تھے، نے عدالت کے حکم کے مطابق دو طالبات کو حجاب اتارنے کی ہدایت دی۔ جس سے طلبہ میں غم و غصہ پھیل گیا اور مزید طلبہ نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا۔مسکان نامی مسلمان نامی لڑکی نے انتہا پسند ہندو نعرہ بازوںکے جے شری رام کے مقابلہ میں کسی ڈر اور خوف کے بغیر اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ مسکان کی وڈیو لمحوں میں دنیا بھر میں وائرل ہوگئی ۔ جس کو دیکھ کر نام نہاد بھارتی سیکولر ازم کی قلعی دنیا پر کھل گئی۔ اور اس پر مودی حکومت کی مذمت کی گئی ۔ لیکن اب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بھارتی ہندوتوا نے سکھوں اور دوسری اقلیتوں کو بھی نشانے پر ر رکھ لیا ہے ۔ اگر مودی حکومت اپنے اس رویہ سے باز نہ آئی تو اسے سکھوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔