کچھ کم نہیں ہے وصل سے یہ ہجر یار بھی آنکھوں نے آج دھو دیا دل کا غبار بھی اپنے نقوش پا کے سوا کچھ نہیں ملا اپنے سوا کوئی نہیں صحرا کے پار بھی جستجو تو بہر طور پھر بھی کرنا پڑتی ہے کوئی راستہ تو نکالنا ہی پڑتا ہے مکالمہ آخر کو ثمر بار ہو جاتا ہے جن کو ہے جستجو پہ یقین ان کے واسطے۔ہوتا ایک چاند سر رہگزار بھی ۔ایک شعر اس مناسبت میں اور پھر چلتے ہیں آگے۔خوشبو کو لے کے بادصبا ہر طرف گئی مہکا ہے سعد پھول سے یہ خار زار بھی۔ آخر مذاکرات کی ایک شکل نکلی تو ہے آخر کار مکالمے کے ذریعہ طرح دینے کی کوشش کرنے والے زیر دام آ کر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔نہیں صاحب! ایسے نہیں اب انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں کہ یہاں عہد ایفا کرنے کی بات بھی ہے: اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا پی ٹی آئی کا مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے شاہ محمود قریشی جیسے گھاگ لوگ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوئے اور ان کے ساتھ پرانے رتن پرویز الٰہی بھی تو شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو اتحادی بری طرح پھنس گئے ہیں کہ کچھ لوازمات تو انہیں پورا کرنے پڑیں گے اس میں کچھ غلط بھی نہیں کہ اگر 14مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کریں تو ایک دن الیکشن کرانے کو عمران تیار مگر دوسری طرف اتحادی ماضی کے قریب بلکہ ماضی عنقریب میں دیکھ چکے کہ اسمبلیاں توڑنے کا مطلب بے دست و پا ہو جانا ہے یعنی لاغر اور لاچار ہو جانا ہے۔دوسری بات بھی اچھی کہی گئی کہ خدا کے واسطے 15کے 15ججز متحد ہو کر آئین کے ساتھ کھڑے ہو جائیں واقعتاً یہ جو تالی بجی ہے یہ دونوں ہاتھوں نے بجائی ہے اور یہ تالی تماشائی بجایا کرتے ہیں۔یہ تماشہ سچ مچ بند ہونا چاہیے اور یہ بھی غلط نہیں کہ قومی معاملات میں مع اہل و عیال کو نہ گھسیٹا جائے۔ واقعتاً اگر آپس کے مذاکرات ہی سے مسئلے کا حل نکل آئے تو اور کیا چاہیے۔تو میں نے یہ غلط نہیں کہا کہ آئی ہوئی انتخابی بلا کو کچھ دیر کے لئے ٹالا جا سکتا ہے۔اس لئے مذاکرات کو جاری رکھ کر پی ڈی ایم کو انتخاب پر لے آنا کامیابی نہیں تو کیا ہے۔ فی الحال تو الیکشن کی وہ روائتی گہما گہمی کہیں دکھائی نہیں دیتی یہ درست کہ پی ٹی آئی اپنی ٹکٹیں تقسیم کر کے دوبارہ ردوبدل بھی کر چکی۔اکھاڑے میں ایک ہی پہلوان ڈنڈ پیل رہا ہے دوسرا پہلوان ابھی اترنا ہے اس نے مگر ابھی لنگوٹ ہی نہیں کسا۔ اب کے لگتا ہے اس کشتی میں فیصلہ بھی عوام نے کرنا ہے امپائر والا معاملہ چھوڑیے اس کا مطلب مگر یہ بھی نہیں کہ امپائر بے روزگار ہو جائے گا یا بے کار۔ فی الحال اس کا سستانا بھی ضروریہے کوئی بھی شخص ہو وہ اپنے کام سے دستبردار مشکل سے ہوتا ہے: سر تسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے ویسے اس وقت کچھ دلچسپ عناصر بھی سیاست میں آ گئے ہیں ابھی ساس کا تذکرہ ہی ختم نہ ہوا تھا کہ درمیان میں پھوپھو کا تذکرہ بھی آ گیا۔چوہدری سالک اپنی پھوپھی پر برہم ہیں انہوں نے کہا پولیس نے جو کیا سو کیا اپنوں نے بھی کم نہیں کیا۔ میں ایک کلپ میں یہ معاملہ سن رہا تھا کہ پرویز الٰہی کے گھر پر حملہ سیاسی بھی ہو گا مگر اس میں شریکا بھی شامل ہے اور اس میں سارے رشتے ناتے جوڑ کر بتائے گئے کہ کون کس کی پھوپھو ہے اور کون کس کا کیا۔تفصیل ممکن نہیں عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان سیاست دانوں کی نانی ایک ہی ہے معاف کیجیے اگر کوئی محاورہ غلط بیٹھ جائے کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم پر حکومت کرنے والے آپس میں بقول آرنلڈ برابر ہیں ۔ ان کی لڑائی کو آپ ہاتھیوں کی لڑائی سمجھیں اور خود کو سبزہ کہ جسے پامال ہونا ہے ’’تمہیں برباد کرنا تھا ہمیں برباد ہونا تھا‘‘۔لیکن اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ہمارا ایک ارمان بھی تو ان کے ساتھ ہے کہ یہ سیاستدان ہمارے بغیر کچھ نہیں اور ہم ان کے بغیر کس کام کے۔ایک دفعہ پھر ووٹ کو عزت ملنے والی ہے اور سچ مچ ایسا ہونے والا ہے کہ کچھ کچھ نیوٹرل ہوتا نظر آ رہا ہے دوسرا یہ کہ یہ ووٹ اب بھی مشینوں نے نہیں گننے۔ اس لئے ووٹ پر یقین رکھنے والے اب ووٹ سے ڈر رہے ہیں اس وقت تو ووٹر ویسے بھی ستے بیٹھے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ غصے میں بھرے بیٹھے ہیں زندگی اجیرن ہو چکی ہے ۔ آخری بات یہ کہ سراج الحق نے پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس آپریشن کی سخت مذمت کی ہے ظاہر ہے وہ اس مذاکرات کا آغاز کروانے والے ہیں ایسے موقع پر آپریشن ٹائمنگ بڑے معنی رکھتی ہے کہ آپ ایک مثبت عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ سراج الحق نے کہا کہ بکتر بند گاڑی کا استعمال ناقابل فہم ہے انہوں نے ایک اور بات درویشانہ اور معصومانہ کہی کہ جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے تو اس میں کون بچتا ہے اس معاملے میں تو کوئی کانا راجہ بھی نہیں۔یہ جملہ میں نے بات کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے لکھا ہے اپنا ہمارا دوست ازہر درانی یاد آیا: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی صرف یہی نہیں اس معاملے میں ہمارے دوست غلام محمد قاصر مرحوم کا بھی ایک شعر ہے مگر کسی کی تحریف کے ساتھ: کروں گا کیا جو کرپشن میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا اصل شعر میں کرپشن کی جگہ محبت ہے‘ اور پھر جگر کے ایک مصرع میں بھی محبت کو ہٹایا جا سکتا ہے کہ میرا پیغام کرپشن ہے جہاں تک پہنچے۔چلیے ہم اپنے ایک شعر میں سے بھی محبت نکال دیتے ہیں: میں کرپشن کو زندگی سمجھا اس کرپشن نے مار ڈالا مجھے ٭٭٭٭٭