کوئی مرکز بھی نہیں کوئی خلافت بھی نہیں سب ہی حاکم ہیں مگر کوئی حکومت بھی نہیں جھوٹ ہی جھوٹ ہے یہ سارا نظام حرمت اور اس جھوٹ پہ حاکم کو ندامت بھی نہیں آپ یقین کیجیے کہ سب کے سب اقتدار ہی کے بھوکے ہیں۔کم از کم اس معاملے میں مولانا نے تو سچ ہی کہا تھا کہ کیا کوئی اقتدار حاصل نہ کرنے کے لئے بھی سیاست کرتا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے مگر سراج الحق کی بات حق ہے کہ ایوان اور عدلیہ مورچہ زن ہیں۔ آئین تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ ایک فلم دیکھی تھی جس میں رنگیلا اور منور ظریف اپنے استاد کی خدمت کرتے ہوئے استاد کی دونوں ٹانگوں کی مالش کرتے تھے جب استاد نے اپنی دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پر رکھی تو رنگیلے نے کہا کہ تمہاری ٹانگ کی یہ جرأت کہ میری ٹانگ پر سواری کرے یہ کہتے ہوئے اس نے وہی ٹانگ پر ڈنڈا دے مارا۔استاد چیخا مگر منور ظریف نے یہ کہتے ہوئے کہ تونے میری ٹانگ پر نڈا مارا ہے کہتے ہوئے گرم گرم پانی بائیں ٹانگ پر انڈیل دیا۔دونوں ٹانگوں کو اپنی ملکیت سمجھنے والے بھول گئے انہوں نے استاد کی دونوں ٹانگیں مجروح کر دی تھیں۔ یہ مذاکرات کا معاملہ بھی عجیب ہے یہ تو سچ مچ مذاق رات ہے۔ کم از کم حکومتی لوگ تو مذاکرات کو وقت ٹالنے کیلئے کر رہے ہیں پی ٹی آئی والے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے اب بات یہی ہو رہی ہے کہ جس کا ڈر تھا وہی ہوا ہے۔ مولانا کا مؤقف یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سیاستدانوں کو بلا کر بات کر سکتا ہے مگر الیکشن کمیشن پر پی ٹی آئی پر اعتماد نہیں۔ بات فواد چوہدری کی بھی باوزن ہے کہ عوام کے نمائندہ لوگوں کی حکومت نہیں ہے۔ بہرحال لگتا یہی ہے کہ : الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا کہا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم مذاکرات کے لئے سنجیدہ نہیں ہے اور یہ ہرگز غلط نہیں کہ عام سا فہم رکھنے والا شخص بھی سوچ سکتا ہے کہ اپنی موت کو کون آواز دیتا ہے۔ حکومتی لوگ اس لئے بھی خطرناک ہو چکے ہیں کہ ان کو اپنا مستقبل نظر ہی نہیں آ رہا۔وہ پہلے ہی جیلیں اور سزائیں بھگت چکے ہیں ان کے سینے پر ہاتھ رکھنے والا بھی کوئی نہیں،معاملہ کچھ زیادہ ہی الجھ گیا ہے شاہ محمود قریشی کی باتوں سے سب کچھ عیاں ہے کہ یہ مذاکرات وغیرہ سب فضول ہیں ،ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت تو اپنے موقف سے سر مو بھی پیچھے نہیں ہٹی کہ وہ اخراجات کے لئے پیسے دے دید گی۔بلکہ یہ معاملہ تو پیچھے رہ گیا ہے وہ تو اور بھوتر گئے ہیں۔اب بھوتر کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ اور تو اور بلاول زرداری ہی مان نہیں۔ وہی جو کہتے ہیں بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ پی ٹی آئی تو اکتوبر کے لئے الیکشن کا مان سکتی ہے مگر اس بات کا کون یقین دلائے کہ اکتوبر بھی کبوتر ثابت نہ ہو۔ آپ یقین کیجیے کہ حکومت کسی معجزے کی تلاش میں ہے کہ ان کی پوزیشن کسی طرح سے بہتر ہو جائے شاید روس سے پٹرول سستا مل جائے یا کوئی آئی ایم ایف رحم کھا لے ۔ن لیگ کو خود یقین نہیں آ رہا کہ ان کی پوزیشن اتنی مخدوش ہو جائے گی۔ان کی طرف سے تو طے ہے کہ عمران خان نہ آئے اور اس بات سے سارے اتحادی مکمل طور پر متفق ہیں۔ عوام میں وہ یہ بات کرتے ہیں کہ کسی کو کیا اختیار کہ وہ جب چاہے اچھی خاصی اسمبلیاں توڑ کر کہے الیکشن کرائو ۔کیا عوام کے پیسے اس مقصد کے لئے ہیں گویا انہیں پاکستان کے عوام کے پیسوں کا کس قدر خیال ہے۔ ایک اور بات بڑی اہم ہے کہ جس کی طرف غور نہیں ہو رہا حکومت بجٹ پیش کرنے تک جانا چاہتی ہے اور اس بجٹ میں وہ بارودی سرنگیں بچھائے گی یعنی آنے والی حکومت کے لئے کوئی نہ کوئی بڑا مسئلہ چھوڑے گی۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے ویسے تو وہ عمران خاں پر بھی یہی چارج لگاتے ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف سے نہ نبھانے والے معاہدے کیے ۔معاہدے نبھانے کے لئے حکومت کو لکیریں نکالنا پڑیں اب اسی طرح کا بدلہ یہ حکومت بھی تو لے گی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ اب صورتحال سب کے سامنے ہے کہ شہباز شریف کی لکنت میں بھی روانی آ گئی ہے کہ کہتے ہیں تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہیں مانتے ،گھر بھیجنا چاہتے ہیں تو تیار ہیں لیکن ایوان کا مان نہیں توڑوں گا۔ 180ارکان کا اعتماد دکھایا جارہا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا کہ اک دوجے دے خوف نال جڑے ہوئے نیں شہر دے مکان۔شہباز شریف نے ارکان کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا وہ تو عصرانہ اور عشائیہ بھی دیں گے۔ ایک زمانہ ہمیں یاد ہے جب ن لیگی ارکان کو چھانگا مانگا لے جا کر تین وقت کا کھا نے کا ذمہ لیا گیا ۔ تب تو ارکان کے لئے ہارس ٹریدنگ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا اور اس لفظ کی چھانگا مانگا کے ساتھ مناسبت بھی تھی میرا طلب ہے تلازمہ مکمل تھا۔ آخر میں بابر اعظم کو مبارکباد کہ پہلا ون ڈے میچ نیوزی لینڈ سے جیت لیا۔ نیوز ی لینڈ نے بہت اچھا کھیل پیش کیا اور 287کا ٹارگٹ دیا 117کی کمال اننگز کھیلی بابر کی ففٹی ایک رنز سے رہ گئی امام نے 60رنز کیے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رنز بننے بالکل بند ہو گئے آغا سلمان نے گیارہ بال ضائع کئے مگر آخر رضوان ہی کام آیا اور اس نے کمال اننگز کھیلتے ہوئے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا پاکستان 500فتوحات والا تیسرا ملک بن گیا سب سے اہم بات کہ بابر اعظم اپنی فارم میں آ گیا ہے اور ویسے بھی ٹیم میں ایک ٹیم ورک نظر آیا نواز نے بھی جلدی کرنے کی بجائے رضوان کو سٹرئیک کا انتظار کیا ہمیں تو پاکستان کو فتح سے سروکار ہے میں نے آخری گیند تک میچ دیکھا جیسے ایک شعر جو پروفیسر محمد سلیم ہاشمی نے اپنی وال پر لگایا: سعد دنیا میں یہی ایک چلن ہر سو ہے ہم اگر قوم ہیں تو قومی زبان اردو ہے