خان صاحب نے آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔25مئی کو انہوں نے ملک کے تمام شعبوں کے عوام کو اسلام آباد پہنچنے کی دعوت دی ہے۔پھر دارالحکومت میں کیا ہو گا۔اس کی کوئی پیش گوئی ابھی سے کرنا مشکل ہے لیکن سنجیدہ اور ہوش مند طبقے کے دل دھڑک رہے ہیں،کسی ان ہونی کے ہو جانے کے اندیشے سے۔ظاہر ہے حکومت نے بھی ہاتھوں میں چوڑیاں تو پہنی نہیں ہیں کہ خاموشی سے تماشا دیکھے اور خان صاحب کے لئے میدان خالی چھوڑ دے۔اچھی بات یہ ہے کہ 25مئی کو جو تماشا ہو گا‘ اسے خان صاحب نے پرامن رکھنے کی اپیل ہے اور توڑ پھوڑ اور گھیرائو جلائو سے مکمل پرہیز کرنے کی ہدایت کی ہے کیونکہ بقول ان کے یہ ملک ہمارا ہے اور ہم ہیں پاسباں اس کے۔حکومت کہتی ہے کہ اگر تشدد کا راستہ اپنایا گیا تو قانون اپنا راستہ بنائے گا۔خان صاحب کا مطالبہ ہے کہ انتخابات کا اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، نیز اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔حکومت تو پہلے ہی اچھنبے میں پڑی ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔حکومت کی سواری شیر کی سواری ہے۔شیر کی پیٹھ پر بیٹھنے کو بیٹھ تو گئے لیکن اندیشہ ہے کہ شیر اپنی برق رفتاری سے گرا نہ دے اور اترنے کی ہمت کریں تو شیر کھا نہ جائے۔اس لئے حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر اس کے حامیوں میں اس معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ایک طبقے کی رائے ہے کہ حکومت سے نکل کر انتخابات کا رخ کرنا چاہیے،دوسرے طبقے کی رائے ہے کہ انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کر کے حکومت چھوڑنا اور میدان میں اترنا چاہیے۔جن لوگوں نے وزارتوں کی شیروانی پہن لی ہے‘ اسے فوراً اتارنے پر تیار نہیں ہوں گے لیکن دوسری طرف عوام کا بڑھتا ہوا دبائو اور خان صاحب کے جلسے جلوسوں نے انہیں تشویش میں بھی مبتلا کر رکھا ہے اور اب 25مئی کو جو فائنل رائونڈ ہونے جا رہا ہے، اس نے تو سارے ملک میں سنسنی پیدا کر دی ہے۔اگر تصادم اور ٹکرائو کی فضا ہموار ہوئی تو دارالحکومت میں کیا منظر نامہ طلوع ہو گا۔ اس بارے میں کوئی حتمی بات ابھی سے تو نہیں کی جا سکتی لیکن اندیشے اور وسوسے بہت زیادہ ہیں۔دونوں طرف یعنی خان صاحب اور ان کے رفقاء کو اور حکومت کے کار پردازوں کو بہت زیادہ ہوش مندی اور تدبر سے کام لینا پڑے گا۔ جس کی امید ذرا کم ہی ہے۔دھرنے کی سیاست جب سے ملکی سیاست میں متعارف ہوئی ہے، تب ہی سے سڑکوں پہ قبضہ کر کے نظام زندگی کو معطل کرنا معمول بن گیا ہے۔خان صاحب کا یہ دھرنا کتنا کامیاب ہو گا‘ اس بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابھی جذبات کا لوہا گرم ہے۔ جن جن شہروں میں خان صاحب نے جلسہ کیا ہے، وہاں وہاں لوگ جوق درجوق جلسوں میں امڈ آئے‘ ان جلسوں میں خان صاحب نے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی تقریر کی ہے اور عوام سے یہ وعدہ لیا ہے کہ وہ جب بھی کال دیں گے، ان کی کال پر لوگ اسلام آباد ضرور پہنچیں اور عوام نے ہاتھ اٹھا کے اور لہرا کے یہ وعدہ کر بھی کیا ہے۔اس لئے پورا امکان یہی ہے کہ تمام ہی شہروں سے جوشیلا اور جذباتی نوجوانوں کا ریلا دارالحکومت پہنچے گا ۔لیکن پھر وہاں کیا ہو گا۔ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ انتخابات کی تاریخ دے دی جاتی اور جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا معاملہ ہو جاتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ جو ہونی مقدر ہے وہ ہو کے رہے گا اور ناسمجھی کے اقدام سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو بھی حیران اور ششدر کر کے رکھ دیں گے۔خان صاحب فاسٹ بالر رہ چکے ہیں‘ ان کی نفسیات بھی فاسٹ بالر والی ہے اور وہ طاقت سے پھینکی جانے والی گیند سے پچ پر کھڑے بیسٹمین کو ڈھیر کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ سیاست کا کھیل‘ کرکٹ کے کھیل سے مختلف ہے۔سیاست میں کام طاقت سے نہیں تدبر سے چلتا ہے۔تدبر کا مطلب ہے عقل اور ہوش مندی سے حکومت یا مقتدر قوتوں کو اپنی شرائط منوانے پر مجبور کر دینا۔جہاں تک دھرنے کا معاملہ ہے آج تک جتنے دھرنے ہمارے سیاسی میدان میں دیے گئے ہیں،ان میں شاید ہی کسی دھرنے کے مطلوبہ نتائج سامنے آئے ہوں۔اس سے اگر کوئی نقصان پہنچا ہے تو وہ ملک کو ہی پہنچا ہے لیکن یہ کہہ کر خود کو تسلی دے لی جاتی ہے کہ یہ نقصان ملک کے اعلیٰ تر مفاد میں کوئی بڑا نقصان نہیں۔جب کوئی سیاسی پارٹی ریاست اور اپنے مفاد کو ایک سمجھ لے تو اسے پھر یہ سمجھانا دشوار ہو جاتا ہے کہ ریاست‘ ریاست ہے اور سیاسی پارٹی بہرحال سیاسی پارٹی ہے۔ اس ملک میں نہ جانے کتنی سیاسی پارٹیاں آئیں اور چلی گئیں۔کتنے لیڈر اور حکمران طلوع ہوئے اور پھر غروب ہو گئے لیکن ریاست اپنی جگہ پر ویسے ہی موجود ہے۔فاشسٹ انداز فکر یہی ہے کہ فرد اور ریاست کو لازم و ملزوم سمجھا جائے اور سب کو یہی سمجھایا جائے کہ میں ہوں تو یہ سب کچھ ہے۔حالانکہ ایسا سمجھنا اور سمجھانا نہ صرف نادانی اور حماقت ہے بلکہ یہ بھی سبق تاریخ سے لینا چاہیے کہ قبرستان ایسے ناگزیر لیڈروں سے بھرے پڑے ہیں۔اس وقت جذبات ابھرے اور بپھرے ہوئے ہیں اور ایسے جذباتی لمحوں میں حقیقت کو برہنہ آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں کیوں کہ حقیقت کو جذبات سے الگ رہ کر اسی وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ جب خود کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ ’’میں ناگزیر نہیں‘‘ جلسوں میں سیاسی پارٹی کا پرچم لانے کے بجائے قوم پرچم منگوانا اسی انداز فکر کی چغلی کھاتا ہے۔مقبولیت اور ہر دلعزیزی ہی معیار حق نہیں، اس ملک میں بہت مقبول و ہر دلعزیز لیڈر گزرے ہیں لیکن انہوں نے ملک کو کیا دیا؟کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے۔ہم خان صاحب کے مخالف نہیں۔بلا شبہ ان میں وہ خوبیاں ہیں جو پچھلے حکمرانوں میں شاذو نادر ہی پائی جاتی تھیں لیکن انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ضرور ہے کہ وہ اپنی ذات اور ملک کو ایک نہ سمجھیں اور یہ بات ان ہی کو سمجھائی جا سکتی ہے کیونکہ ان میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کو مان لیتے ہیں اور اس سے رجوع بھی کر لیتے ہیں۔چاہے اسے یوٹرن ہی کا نام دیا جائے لیکن ہے یہ خوبی کی بات۔البتہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنا نقصان اٹھا کر یہ کتنا گھاٹا پہنچا کر اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہیں۔ ہمیں خان صاحب سے ہمدردی ہے لیکن اسی ہمدردی میں ہم یہ بھی انہیں مشورہ دیں گے کہ خان صاحب! پاکستان قدرت کے فیصلے کا نام ہے یعنی یہ ملک قدرت کے فیصلے سے وجود میں آیا ہے اور اس ملک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جس نے بھی اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے ۔قدرت نے اسے معاف نہیں کیا ہے۔وہ اپنے انجام کو ضرور پہنچا ہے۔لہٰذا خدا نے آپ کو جو مقبولیت اور ہر دلعزیزی عطا کی ہے۔ اس کے نشے میں کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے اس ملک کو کوئی نقصان پہنچے۔خدانخواستہ ایسا ہوا تو قدرت نے پہلے کب کسی کو معاف کیا ہے جو آپ کو بخشی دیا جائے گا۔جو قدم بھی اٹھائیں‘ یہ سوچ کر اٹھائیں ہوش و تدبر کے ساتھ اٹھائیں۔