سید ہجویرؒ نے فرمایا تھا:سارے ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر موقوف ہے۔ حکمران جب بے علم ہوں، عالم بے عمل اور فقرا جب بے توکل ہو جائیں ۔گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہاں تینوں عوامل موجود ہیں۔بات صرف بجلی ، پٹرول یا گیس مہنگا ہونے کی نہیں۔ ہر چیز کے دام بڑھ چکے۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہے:جس نے میری یاد سے منہ موڑا،اس کے لیے تنگ زندگانی ہے۔دنیا کی تنگ زندگی سے مراد، بندہ ہدایت کی پیروی نہ کرے،برے عمل اور حرام فعل میں مبتلا ہو۔ قناعت سے محروم ہو کر حرص میں گرفتار ہو جائے ۔ مال و اَسباب کی کثرت کے باوجود دل کی فراخی اور سکون مْیَسَّر نہ ہو ،حال تاریک اور وقت خراب رہے اور توکل کرنے والے مومن کی طرح اس کو سکون و فراغ حاصل ہی نہ ہو ۔جسے حیاتِ طیّبہ یعنی پاکیزہ زندگی کہتے ہیں۔آج ہر کوئی ان حالات سے دوچار ہے ۔ حکمران طبقے کی بات ہی الگ ۔وہ کبھی بازار گئے نہ ہی خریداری کی۔ ایسا آدمی رعایا کے دکھ کیا جانے۔رعایا نہیں ان کے نزدیک 24کروڑ کیڑے مکوڑے ہیں۔ پاکستانیوں کا حال تو اس قوم کی طرح ہے، جنہوں نے باد شاہ سلامت سے بس جوتے مارنے والوں کی تعداد زیادہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ 60روپے فی لیٹر پٹرول میں اضافہ، 8روپے فی یونٹ بجلی بڑھ گئی،45فیصد گیس بھی مہنگی۔لیکن لبرٹی مارکیٹ میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر۔اسی کو کہتے ہیں ،جوتے مارنے والے بڑھا دیں ۔ قومی اداروں کا رعب‘ دبدبہ ‘ خوف اور احترام ضروری ہے۔ ورنہ لیبیا‘ سری لنکا اور یمن بننے میں دیر نہیں لگتی۔سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمدضروری‘ فوج کا وقار بھی پہلے جیسا نہیں ۔مشرف دور میں ایک وقت تھا ، جب فوجی وردی اتار کر بازار جاتے تھے۔ ابھی نندن کے واقعہ کے بعد عوام کی جانب سے محبت ملی ،لوگ وردی کو چومتے تھے۔ ایسی محبت بحال کروانا وقت کا تقاضہ۔ سیاستدان سُکر کی حالت میں عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ کذب بیانی‘ دروغ گوئی‘ دشنام طرازی کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات پر حکمران اتحاد ایسی ہی باتیں کر رہا، جن کا زمینی حقائق سے دور کا واسطہ نہیں۔عمران خاں برا تھا، لاکھ برا سہی مگر اس نے چار برسوں میں صرف 58روپے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔اِنہوں نے ایک ہفتے میں 60کا ہندسہ عبور کر دیا۔اس کے باوجود سابق حکمرانوں پر تہمتیں جوڑی جا رہیں۔ بولتے وقت مطلق پرور نہیں کہ جمہوریت دشمنوں کو شہہ مل رہی، جمہوریت کمزور اور سیاستدانوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی۔ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا : اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ وہ حبس ہے کہ لْو کی دعا مانگتے ہیں لوگ 1985ء میں برطانیہ میں مالی بحران آیا، بے روزگاری اور افراط زر انتہا کو چھونے لگی ۔ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی وزیر اعظم تھیں۔ وزارت خزانہ نے اسے ایک حل پیش کیا،یہ منصوبہ بھی اس وقت کے اسحاق ڈاراورمفتاح اسماعیل جیسے معیشت دانوں کی نظر میں آئیڈیل تھا۔حکومت سبزی ‘ دودھ ‘ انڈے‘ گھی‘ پٹرول‘ گوشت‘ ریل ٹکٹ کی قیمت دگنی کر دے۔ اس سے برطانیہ کو 8بلین پونڈ ملیں گے۔ حکومت مالی بحران سے نکل آئے گی۔ میٹنگ کے دوران ہی مارگریٹ تھیچر نے پڑھے بغیر یہ منصوبہ مسترد کر دیا۔وزیر خزانہ نے رد کرنے بارے استفسار کیا، تو مارگریٹ نے کہا: یہ تمام چیزیں عام لوگوں کے استعمال کی ہیں۔ ان کے بغیر کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا۔حکومت چلی جائے مگر عام آدمی کی زندگی اجیرن نہیں بننے دوں گی۔تھیچر نے نئے معیشت دانوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان نوجوان نے ’’کریڈٹ کارڈ‘‘ متعارف کرانے کا مشورہ دیا۔ پلاسٹک منی کی شکل میں نئی معیشت کی بنیاد رکھی گئی۔ دو برسوں میں معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی۔ 1987ء میں برطانیہ کے مشہور صحافی ڈیوڈ فراسٹ نے مارگریٹ کا انٹرویو کیا، تو اس نے پلاسٹک منی کو بہترین کامیابی قرار دیا۔مارگریٹ نے کہا نہیں۔کامیابی کی وجہ غریبوں کی دعائیں ہیں۔ مارگریٹ کا اعتراف ہر حکمران کے لئے ایک آئیڈیل ہونا چاہیے۔ یہاں تو حکمران صبح و شام مظلوموں کی بددعائیں لیتے ہیں۔ رات سوتے وقت ریٹ کچھ، صبح بیدار ہوں تو کچھ۔ ہمارے ہاں دو قسم کی چیزیں ہیں۔ایک جن کے بغیر زندگی نہیںچل سکتی۔دوسری تعیّشات۔ پہلی قسم کی چیزوں کو کنٹرول کرنا حکمران طبقے کا امتحان ہوتا ہے۔ غریب تب بددعا دیتا ہے ،جب اس کا بچہ کھانے کے بغیر سوئے۔بیمار ہونے پر دوائی نہ خرید سکے۔اس وقت اس کی بددعا سیدھی آسمان کو پہنچتی ہے۔ مہنگائی کی بڑی وجہ تعیّشات۔ حکمران طبقے کی عیاشی، لوٹ مار، فضول خرچی ۔ عظیم دانشور نے کہا تھا :بدی اور کامیابی کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتی۔آزادی وکامیابی کے محل میں داخل ہونے کے لئے ہمت پہلا دروازہ ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان محترم عطاء اللہ تارڑ نے اعلان کیا ہے : صوبائی وزراء اپنے خرچے سے پٹرول خریدیں گے۔کہیں یہ پہلے سے منصوبہ بندی تو نہ تھی، سوشل میڈیا پر اسے کرتب اور چالبازی کا ایک کرشمہ قرار دیا جا رہا ہے۔مہنگائی میں اضافہ کر کے حکومت ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تصادم او رکشمکش کی اندھی راہوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔خودساختہ ترجمانوں کی زبانیں چنگاری کو شعلہ بنا رہیں۔ برہنہ انداز میں عوامی اشتعال میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔11جماعتی حکمران اتحاد نے کوئی حکیمانہ راہ اختیار نہ کی ،تو بڑا المیہ ہو گا۔ کل کیا ہو گا یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن جو بویا جا رہا، کل ضرور کاٹنا پڑے گا۔ خاندانی شرافت اور دانش کی رمق جن میں موجود ہے وہ تو ابھی سے لاتعلقی اختیار کر رہے ہیں۔ نکتہ مگر یہ ہے کہ دانشمندی بازار میں نہیں بکتی، بے حسی شعار بن جائے تو آدمی کو عزت کی پروا نہیں ہوتی۔وفاقی حکومت نے معاشی ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کیا۔ سندھ نے پٹرول کا کوٹہ 40،کے پی نے 30فیصد کم کر دیا۔ پنجاب نے سوفیصد پابندی عائد کر دی ۔صرف زبانی جمع خرچ ۔ کوئی نوٹیفکیشن نہیں ۔سرکاری محکموں میں زبانی اعلانات سے نہیں ،عملی اقدامات سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں ۔ بجلی کے مفت یونٹ ریوڑیوں کے طرح بانٹے جا رہے ہیں۔ بحران کے حل تک یہ سخاوت بھی روک دی جائے۔ گیس پر سبسڈی جاری رکھی جائے۔اگر یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، تو کل عوام کا آمنا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ قرض پر قرض لیا جا رہا۔معیشت استوار کرنے کی ذرا سی فکر نہیں۔ دعوے بڑے بڑے مگر عملاََکام صفر۔خطرات ہی خطرات ہیں، حل مگر موجود۔ مکمل طور پر منصفانہ الیکشن۔