پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کا جائزہ لینے میں بھی ہرج نہیں ۔ اے این پی کو دیکھیں ۔ وہ مردان کی سیٹ تو جیت گئی لیکن اپنے ہوم گرائونڈ چارسدہ میں بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ چارسدہ سے اسفند یار ولی کے سیاسی جانشین ایمل ولی اگلے انتخابات میں سیاسی اڑان بھرنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اڑان بھرنے سے پہلے ہی انہیں شدید دھچکا لگا ہے ۔ ماضی میں اے این پی کابڑا انحصار بلور خاندان پربھی رہا ہے اور بلور خاندان پچھلے کچھ عرصے میں کافی کمزور ہوا ہے ۔اگرچہ ہارون بلور کی بیوہ ثمر ہارون بلور نے پشاور میں پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کی کافی کوشش کی ہے لیکن وہ کوشش نتائج پر منتج نہیں ہو پائی۔ حالیہ انتخابات میں بلور خاندان سمیت اے این پی کی مجموعی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ہے ۔ جماعت اسلامی نے خود کو کمال مہارت سے برباد کیا ہے۔ خیبر پختونخوا ہ میں یہ جماعت اچھا خاصا ووٹ بینک رکھتی تھی لیکن حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی تذکرے میں بھی نہیں آئی۔ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر مذہبی سیاسی جماعتیں مل کر کچھ نہ کچھ تحریک پیدا کر لیا کرتی تھیں ، تنہا ہو کر جماعت اسلامی کمزور سیاسی جماعت دکھائی دینے لگی ہے۔انتخابات کے دوسرے مرحلے میں وہ دیر اور لوئر دیر سے بہتر نتائج دینے کی کوشش میں ہے ، دیکھیے عوام انہیں کتنی پزیرائی دیتے ہیں ۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی بھی قابل ذکر نہیں رہی ۔ پشاور میں اگرچہ ارباب زرک خان نے 45 ہزار سے زائد ووٹ لیے لیکن تیسرے نمبر پر رہے۔ ایک زمانے میں پشاور پیپلز پارٹی کا ہوا کرتا تھا ۔ آج پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ پیپلز پارٹی کے سابق ورکرز پر مشتمل ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی آج کی پی ٹی آئی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے خیبر پختونخواہ میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ نوشہر ہ میں جلسہ بھی کیا جہاں پرویز خٹک کے بھتیجے پیپلز پارٹی کی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے اور انہیں ن لیگ اور جماعت اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ اس کے باوجود نہ صرف پیپلز پارٹی اس سیٹ پر ہاری بلکہ اتنا زور لگانے کے بعد بھی تیسرے نمبر پر رہی۔ لہذا پیپلز پارٹی بھی خیبر پختونخواہ میں اپنی ساکھ کی بحالی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ کے پی کے الیکشن میں تحریک انصاف کی شکست پر جشن منانے والی ن لیگ کو بھی صوبے میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت ن لیگ محض اس امید پر خوش ہے کہ اگر پی ٹی آئی خیبر پختونخواہ میں غیر مقبول ہوئی ہے تو پنجاب میں بھی ضرور ایسے ہی رزلٹ آئیں گے۔ لہذا خیبر پختونخواہ کے انتخابی نتائج کے آئینے میں ن لیگ پنجاب کے نتائج کا عکس دیکھ رہی ہے۔ ن لیگ کی طرف سے پنجاب میں جیت کا خواب دیکھنا ایسا غلط بھی نہیں ۔ اگر خیبر پختونخواہ میں عوام مہنگائی سے پریشان ہیں تو پنجاب میں زیادہ پریشان ہیں ۔ اگر خیبر میں محمود خان وزیر اعلی ہیں تو پنجاب میں عثمان بزدار ہیں ۔ اگر وہاں تنظیم پر گرفت کمزور ہے تو پنجاب میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ اگر وہاں گورننس کے مسائل ہیں تو یہاں اس سے سنگین ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف کی اپوزیشن جمعیت علمائے اسلام تھی تو پنجاب میں ن لیگ ہے اور ن لیگ جمعیت علمائے اسلام کے مقابلے میں زیادہ طاقتور اپوزیشن ہے۔ خیبر پختونخواہ کے انتخابی نتائج نے پنجاب میںن لیگ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے خیبر پختونخوا کے نتائج کے بعد تحریک انصاف پنجاب میں انتخابات کرانے کا رسک نہیں لے سکتی اور انہیں التوا میں ڈال سکتی ہے۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے آرڈر اور الیکشن کمیشن کے مسلسل دبائو کے نتیجے میں شاید ایسا ممکن نہیں رہا۔ پی ٹی آئی کو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے انتخابی معرکے میں اترنا ہی پڑے گا۔سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا ہ میں قابل اصلاح وجوہات کی بنا پر ہاری یا تین سالہ کارکردگی کے نتیجے میں یہ ہونا ہی تھا۔ اگر ہار کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور کمزور حکمت عملی ہے تو یہ قابل اصلاح پہلو ہے۔ لیکن اگر مہنگائی اور مجموعی کارکردگی نے ووٹرز کو ناراض کر دیا ہے تو خیبر پختونخواہ کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی شاید اس سے مختلف نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پنجاب میں پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج جائے گی۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صرف ٹکٹوں کی غلط تقسیم کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی ۔بہت سے مسائل نے تنظیمی اعتبار سے پی ٹی آئی کو گھیر رکھا ہے۔میری ذاتی رائے میں مہنگائی، بیڈ گورننس، ٹکٹوں کی غلط تقسیم ، اقربا پروری اور کمزور حکمت عملی جیسے عوامل نے مل کر پی ٹی آئی کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ عمران خان غصے میں ہیں اور صحیح غصے میں ہیں ۔ مگر ذمہ داری بھی تو انہی پہ عائد ہوتی ہے۔جن لوگوں نے ماضی میں ٹکٹو ں کی غلط تقسیم جیسے کارنامے سر انجام دیے انہی کو دوبارہ یہ ذمہ داری سونپنا خان صاحب ہی کی غلطی تھی۔ پرویز خٹک جیسے تجربہ کار سیاستدان سے صوبہ لے کر محمود خان کو سونپ دینا خان صاحب کی ہی حکمت عملی تھی۔ تین سال میں فرق ظاہر ہو گیا ہے۔ پرویز خٹک ضلع اور تحصیل کی سطح پر سیاسی معاملات پر گرفت رکھتے تھے ، محمود خان ویسی مہارت نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں پارٹی قیادت اور ورکر کے درمیان خاصافاصلہ پیدا ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں خرابی پیدا ہونے میں تین سال لگے ہیں ، اب دیکھئے درست ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے۔