اسمبلیاں تحلیل ہونی چاہئیں یا نہیں ،پہلے پنجاب اسمبلی ہو یا خیبر پختون خوا کی یا دونوں ایک ساتھ تحلیل ہوں۔قومی اسمبلی کے اراکین اسپیکر کے سامنے اپنے استعفوں کی تصدیق کے لئے اجتماعی طور پر جائیں گے یا الگ الگ انفرادی حیثیت میں پیش ہو ں گے۔چوہدری پرویز الہی کو اعتماد کو ووٹ پہلے لینا ہے یاعدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ پہلے ہوگی۔ گورنر پنجاب کا وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ۔پنجاب ہائی کورٹ نے پرویز الہی کوجو مہلت دی ہے وہ کس کی فتح ہے اور کس کی شکست؟ انتخابات کا فوری انعقاد ہو گا یا نہیں ہے۔یہ ہیں وہ مسائل جن پر ملک کی سیاسی ،قانونی اور انتظامی قیادت الجھی ہوئی ہے ۔ان کے نزدیک پاکستان اس وقت جن مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ان سے نکلنے کی صو رت انہی قانونی اور سیاسی موشگافیوں میں ہے ۔ انہیں اس کی خبر نہیں کہ سرد موسم میں سندھ اور جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ بے گھر اور بے سروسامان ہیں اورحکمرانوں کی ظالمانہ بے حسی پر پریشان اور کسی داد رسی کے منتظر ہیں ! سیاست دانوں کے لئے اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں کہ ملک کی معیشت تباہی کے کس درجے پر پہنچ چکی ہے۔ کتنے فی صدپاکستانی مذید غربت کی سطح سے نیچے جا چکے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر ( ڈالر) مسلسل کم ہو رہے ہیں اور اس کے نتائج ریاست اور اس کے شہریوں کے لئے کتنی مشکلات کا باعث ہو نگے۔ انہیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ ملک کی سلامتی کو جو خطرات درپیش ہیں ان کے تدارک کے لئے کیااقدامات کئے جانے ضروری ہیں ۔بنوں ہو یا اسلام آباد ،کوئٹہ ہو یا وزیرستان ایسا لگتا ہے جیسے سب دہشت گرد وں کے نشانے پر ہے۔ بلوچستان جس سے پاکستان کا معاشی مستقبل وابستہ ہے وہاں سیاسی خاموشی کی تہہ میں بے چینی کا کیا طوفان جنم لے رہا ہے بے خبر ہیں وہ سب جنہیں با خبر ہونا چاہیئے۔ بلوچستان کی قیمتی معدنیات پر عالمی طاقتوں نے نظریں گاڑی ہوئی ہیں۔ اور ان کے ارادے کیا ہیں یہ مگر سیاستدان نہیں جانتے اور جاننا بھی نہیں چاہتے۔ سیاست دانوں کا موجودہ رویہ اس بات کا مظہر ہے کہ ان کے نزدیک ایسے تمام معاملات جو ان کے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں، بس وہ اہم تر ہیں۔ انہیں فکر ہے تو بس اس بات کی کہ کس طرح اقتدار کو حاصل کیا جائے اورکس طرح دوسرے کو بے دخل کیا جائے۔ ایسے تمام مسائل جن کا تعلق عوام سے ،ریاست سے ہے اس کی سلامتی ان کے لئے اہم نہیں ۔ ان کے پاس نہ تو فرصت ہے اور نہ درد دل ۔ جمہوریت کا یہ پاکستانی مزاج انتقال اقتدار کے رموز سے ہم آہنگ نہیںہے ۔آئینی طور پر پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے مگر ہماری سیاسی قیادت نہ وفاق کے آئینی تقاضوں کو سمجھتی ہے اور نہ سمجھنا چاہتی ہے اور نہ ہی جمہوری اقدار کے مطابق طرز عمل کو اپنانا وہ اپنے قامت پندار کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی ثقافت میں اقتدار پر براجمان اشرافیہ کا ایک مختصر گروہ ہے جواپنے لئے مفادات اور مراعات سمیٹنے کو جمہوریت کا نام دے کر جمہور کو بہلائے رکھتا ہے۔75 سال کے سیاسی سفرکی یہی روداد ہے اور یہی آشوب جمہوریت۔ پاکستان کے سماج میںموجود ہمہ جہت مسائل اپنی پیچیدگیوں کے ساتھ لا ینحل ہو تے جارہے ہئں اور جس طرح وہ حکمران قوتوں کی جانب سے مجرمانہ غفلت کے باعث نظر انداز ہو رہے ہیں وہ ریاست کے معاشی ،سماجی اور سیاسی مستقبل کو مخدوش کر رہے ہیں ۔ صورت حال کا یہ تسلسل ان لوگوں کے لئے جو ریاست سے محبت کرتے ہیں جن کا جینا مرنا اس ریاست ہی میں ہے اور جو اس ریاست کی بڑی اکثریت ہیں ان کے لئے انتہائی تشویش کا سبب ہیں۔ نہ ان کے پاس ملٹی پل ویزے ہیں اور نہ ہی ان کے کاروبار دیار غیر میں موجود ہیں ۔نہ ان کی جائیدادیں لند ن ، نیویارک اور دبئی میں ہیں اور نہ ہی وہ وہاں جانے کے خواب دیکھ سکتے ہیں انہیں تو اسی پاکستان میں رہنا ہے چاہے ان کا آنے والا کل معاشی اعتبار سے ان کے لئے کتنا ہی غیر محفوظ ہی کیوں نہ ہو ۔ انہیں تو ہر حال میں اسی ملک میں رہنا ہے اور یہ سب برداشت بھی کرتے رہنا ہے ۔ نعرے بدلتے رہتے ہیں ۔ چہرے بدلتے رہتے ہیں ۔ مگر عوام کی تقدیر نہیں بدلتی۔ اس ملک کی اکثریت خواہ وہ شہروں میں ہو یا دیہات میں، معیاری تعلیم ، صحت و صفائی کی بنیادی سہولتیں ، روزگار کے مواقع ،انصاف کا آسان حصول ، جان و مال کا تحفظ، شہری عزووقاراور احترام ذات ، اس نظام میں محروم ہی رہی۔جمہوری سیاسی نظام پر اشرافیہ کی مضبوط گرفت نے اس نظام کو اپنے مفادات کے لئے مسلسل یرغمال بنائے رکھا ہے اور یہ گرفت اس قدر مضبوط اور مشترکہ ہے کہ اشرافیہ کا یہ گروہ اقتدار میں ہو یا اس سے باہر اس کے مفادات متاثر نہیں ہوتے ۔ سیاست اب تجارت کی طرح نفع اور نقصان کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔جتنی بڑی سرمایہ کاری اتنا ہی سیاست میں بڑا مقام ،وزارت ہو یا کسی اسمبلی کی رکنیت یا پھر سینٹ کی نشست اب اہلیت سے زیادہ مالی حیثیت سیاسی نظام میں مقام کے متعین کرنے کا موئثر پیمانہ بن چکا ہے۔اس نظام کے تسلسل نے پاکستان میں تفوق اور افتراق کی نئی جہات متعارف کرادی ہیں۔ اشرافیہ کے مفادات کے نگہبان اس جمہوری سیاسی نظام نے اپنی کارکردگی سے عوام کی اکثریت کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔انتخابات جو جمہوری سیاسی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں اپنے اخراجات کے تناظر میں اب دولت مندوں ہی کے لئے مختص ہو کر رہ گئے ہیں اگرچہ الیکشن کمیشن ہر الیکشن کے لئے اخراجات کی ایک انتہائی حد مقرر کرتا ہے مگر جانچ پڑتال اور نگرانی کا عمل اتنا کمزور اور کور چشم ہے کہ اس کے لئے سبز اور سرخ کے مابین تفریق کرنا بھی ممکن نہیں۔ ( پاکستان میں انتخابات کے عمل کو سیاسی ،سماجی اور دیگر عصبیتوں کے دبائو کے سا تھ ساتھ کچھ نامعلوم دبائو بھی متاثر کرتے ہیں ۔) انتخابات جو جمہوری نظام کی خشت اول رکھتے ہیں وہ ہی درست نہ ہو تو پھر پورا سیاسی نظام ہی کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام کی کوئی بھی شکل رہی ہو اس نے معاشر ے کی اشرافیہ کو ہی توانا کیا ہے، وہی اس کے ثمرات ہمیشہ سمیٹتے رہے ہیں اور ریاست کی اکثریت جس کی حیثیت اس جمہوری سیاسی نظام میں محض تماشائی کی ہے سب سے زیادہ خسارے میں رہی ہے۔مگر کب تک جمہوریت کا یہ طبقاتی نظام وقت کی نبض کو اپنے ہاتھوں میں لئے رکھے گا کب تک عوام کی اکثریت محض خسارے میں ہی رہے گی۔ تقدیر بدلنے کے سب خوابوں کی تعبیریں عوام کے لئے آخر کب تک خواب ہی رہینگی۔ اس کے لئے عوام کی اکثریت کو سیاسی عقیدتوں اور مختلف النوع عصبیتوں کے دبائو سے از خود نکلنا ہو گا اپنی خاموشیوں کو توانا اور فیصلہ کن آواز میں بدلنا ہو گا تب ہی اس سیاسی نظام میں مقدر کئے جانے والے خسارے سے ان کی نجات ممکن ہو گی!!