ابتدائی جماعتوں میں جب ہمیں پتہ چلا کہ کلاس یا سکول میں جو غیر مسلم طلبہ ہوتے ہیں، انھیں اسلامیات کی جگہ ’اخلاقیات‘ پڑھائی جاتی ہے تو اپنی تمام تر سادگی، بچپنے اور دیہاتی پن کے باوجود یہ سوچ کر ایک دھچکا سا لگا کہ کیا مسلم طلبہ کو اخلاقیات کی کوئی ضرورت نہیں؟ یا یہ اخلاقیات ایسا ہی غیر ضروری مضمون ہے کہ اسے محض اختیاری طور پر اور اتنے محدود پیمانے پر چند غیر مسلموں ہی کو پڑھایا جائے؟آج ہم ایسے ہی غیر مسلموں کی بین الاقوامی شہرت رکھنے والی جامعہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، جہاں ریکٹر سے لے کے چھوٹے سے چھوٹے ملازم کی اخلاقیات دیکھ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے۔ دوسری جانب اسلام کے نام پہ بنے اس ملک میں ایک ایک ادارے کو بھانپ لیجیے، اچھے اثرات زندگی کے کسی شعبے میں نظر نہیں آتے۔ سوچنے کی بات یہ کہ کیا ہم نے اس سرمدی اصولوں والے کامل ضابطۂ حیات دین کو در خورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا، یا دین داری کا دعویٰ کرنے والوں سے سمجھانے میں غلطی رہ گئی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے دینی علوم اور دنیاوی تعلیم میں محض منہ زبانی سبق یاد کرانے یعنی ’رَٹا سَٹا‘ سسٹم پہ اکتفا کیا ہے، اس کی اصل روح کو نہیں سمجھا، زندگی میں اس کے اثرات و ثمرات پہ توجہ نہیں کی۔ یہودیوں کی بابت سنا ہے کہ وہ زندگی میں ایک ہی بار ڈھنگ سے بچوں کو اپنی مذہبی تعلیمات اور دنیاوی ترجیحات سے آگا ہ کر دیتے ہیں، اور بچے تمام عمر دل و جان سے اس پہ سو فیصد عمل کرتے ہیں۔ مذکورہ ادارے میں ان دنوں تو ہماری شرمندگی اوربھی بڑھ جاتی ہے جب کرسمس کی آمد آمد ہوتی ہے۔ ان کے گھروں، گلیوں اور اداروں میں خوشیاں درختوں سے روشنیوں کی صورت پھوٹ رہی ہوتی ہیں۔ دفتروں میں نوجوان مسیحی لڑکے لڑکیاں میزیں سجاتے، ہر آئے گئے کو کیک کھلاتے اور خوش اخلاقی سے دوہرے ہو ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے ملازمین کے لیے خصوصی تحائف کا بندوبست کیا جا رہا ہوتا ہے۔ عام زندگی میں آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ چڑیاں، چیلیں، چیونٹیاں، مرغابیاں، اونٹ، گدھے تک قطار بنانے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں، دیگر قوموں سے تو کیا ہم جانوروں سے بھی نہیں سیکھ سکے۔ اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو ہماری تتر بِتر تہذب اور ذہنیت کا اندازہ مسجدوں میں پڑے جوتوں کی ترتیب سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ دو سال قبل جاپانی پائلٹ مسز اور مسٹر چھِکارا میرے مہمان تھے۔ ان کو لاہور کے کچھ اہم مقامات دکھانا میری ذمہ داری ٹھہری تھی۔ انھیں شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد وغیرہ کی سیر کراتے کراتے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ یہاں کی کون سی چیز سے آپ زیادہ متاثر ہوئے؟ مسٹر چھِکارا لہجے کی طنز کو پوری طرح چھپاتے ہوئے کہنے لگے:’’ یہاں کی ٹریفک سے!… آپ لوگوں کو کتنی آزادی ہے کہ گاڑیوں، سکوٹروں، رکشوں پہ کسی طرح کی قدغن نہیں لگائی۔ دائیں بائیں سے کراس کرنے کی بھی عام اجازت ہے۔ روڈ پہ آ کے ہماری تو ساری خوشیاںخاک میں مل جاتی ہیں… آبادی والے علاقے میں کسی گاڑی کو اوورٹیک کرنا تو دور کی بات، لین تک تبدیل کرنے کو ترس جاتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ہنستے ہوئے بولے: ’’پتہ نہیں ہمیں یہ آزادی کب نصیب ہوگی!!‘‘ پھر یہ بھی دیکھیں کہ پوری دنیا میں گلیوں، بازاروں کی صفائی حکومت کی ذمہ داری نہیں،جب کہ ہمارے ہاںہر گلی کے نکڑ پہ، صرف کُوڑے کا ڈرم ہی نہیں پڑا، اس کے اوپر لکھ بھی دیا ہے کہ ’’کُوڑا اِس میں ڈالیں‘‘ پھر بھی ڈھائی تین مرلے میںبکھرا کچرا ہماری کچرا سوچ کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے۔ شرمندہ ہونا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں، اس نیک کام کے لیے صرف دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔حوائجِ ضروریہ سے فراغت کے لیے ہم وہ گوشہ ڈھونڈیں گے، جہاں دیوار پہ واضح طور پر لکھا ہوگا: ’’فلاں جانور کا بچہ پیشاب کر رہا ہے۔‘‘ مرزا مُفتہ کہتا ہے: ’’اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں لوگ جان بُوجھ کے وہاں لکھواتے ہیں، جہاں طبیعت زوروں پر ہوتی ہے!! ‘‘ ہم اپنی خود ساختہ روایات اور روایتی عاداتِ بد کے عادی ہو چکے ہیں۔ مثلاً کسی لڑکی نے اپنی ذاتی شادی میں پسند کا اظہار کر دیا یا وراثت میں حصے کا مطالبہ کر دیا… تعلق توڑنا تو عام سی بات ہے، ہم ایک پل میں مرنے مارنے پہ اتر آتے ہیں۔ مجال ہے کہ یہ غیرت کبھی جھوٹ بولنے، ملاوٹ کرنے، گندگی پھیلانے، قومی ٹیکس ادا نہ کرنے، دفتر میں ایمان داری سے کام نہ کرنے، رشوت دینے یا لینے،ناجائز کام کے لیے سفارش کرانے، منہ پھاڑ کے جہیز مانگنے، سینکڑوں مشٹنڈوں کی بارات لے کے لڑکی والوںکے گھر پہ دھاوا بولنے پہ جاگی ہو؟ حالانکہ کون نہیں جانتا کہ یہ جہیز اور بارات اسلام کا حصہ ہی نہیں بلکہ اس کی مناہی ہے۔ یہ سراسر ہندوانہ بدعت ہے۔ ہم کیسے منافق لوگ ہیں کہ مُودی کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں اور اس کے مُوذی کلچر کو گھُٹ کے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آج بھی ہمارا ذہنی،معاشرتی، تصوراتی ہیرو وہ ہے، جو تیس دن دفتر نہیں جاتا لیکن ہر ماہ پابندی سے تنخواہ لے آتا ہے۔ ہم ہر علاقے میں قبضہ مافیا،دھونس، دھاندلی اور بدمعاشی کے لیے معروف ممبرانِ اسمبلی کی غلامی اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مجرموں کو تھانے سے چھڑائے گا۔ سگے بھائی کے پلاٹ پہ قبضہ کیا ہوتا ہے اور اعمال کو نجات دہندہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ دُکان پہ سودا سستا نہیں کریں گے، عمرے کے لیے فائیو سٹار ہوٹل میں رہائش پہ اصرار ہے۔ بازار سے تربوز، بنیان، پرس اور ہوائی چپل تک خریدتے ہوئے پوری تسلی کریں گے، گارنٹی مانگیں گے لیکن لیڈر چنتے ہوئے معیار تو دور کی بات کردار تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ میاں شان پنجاب ٹیکنیکل بورڈ کے چیئرمین تھے، دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ ایک دن فرمانے لگے: بورڈ کی ایک ایک اینٹ کرپشن سے آلودہ ہے، ہم نے بہت سی خامیوں کا قلع قمع کر دیا ہے لیکن مَیں اُن لوگوں کا کیا کروں؟ جو سوا بارہ بجے کام چھوڑ دیتے ہیں اور نماز کا دورانیہ گزار کے ڈھائی بجے واپس تشریف لاتے ہیں اور آتے ہی یہ کہہ کے پیک اپ کرنے لگتے ہیں کیونکہ انھیں بچوں کو سکول سے لے کے وقت پہ گھر بھی پہنچنا ہوتا ہے۔(جاری ہے)