غم دینے والے میں ترا احسان مند ہوں لیکن نہ آزما کہ اذیت پسند ہوں میں بھی ہوں بے پناہ مگر اپنے خوف سے اے دیدۂ تری پتلی پہ بند ہوں بات تو زاویۂ نگاہ کی یا پھر اپنی طرف نظر کرنے کی’’نکلا وہ پست قد کہ کبھی ذہن میں نہ تھا۔سوچا تھا ایک دن کہ میں کتنا بلند ہوں۔ کیا سیل کے ساتھ بہہ جانا چاہیے کیا ہوا کہ رخ پر اڑنے ہی میں عافیت ہے اور کیا بھیڑ چال ہی درست رویہ ہے انہیں اپنی سوچ بیان کر دینی چاہیے۔ شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے ہم اس سے ہٹ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے۔اس میں کیا شک ہے کہ عمران خاں نے قومی اسمبلی کی چھ نشستیں جیت لی ہیں اور حکمران اتحاد کے حصے میں دو نشستیں آئی ہیں۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیںکہ عمران خاں اپنی مقبولیت ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔ تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ پیسہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے خرچ ہوتا تو ہزاروں گھر دوبارہ آباد ہو جاتے۔میں الخدمت کے مرکز میں وہ ویڈیوز دیکھ کر آیا ہوں جس میں سیلابی پانی نے سب کچھ مٹا کر رکھ دیا ہے اور لگتا ہی نہیں کہ یہاں کوئی خشکی بھی تھی۔تاریخ کی بدترین تباہی۔ بات تو ساری ترجیحات اور فکر کی ہے۔یہ دو دنیائیں ہیں ایک طرف میں دیکھتا ہوں کہ الیکشن پر بے بہا پیسہ بہایا جا رہا ہے اور حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔چند دن کے لئے یہ ہلہ گلہ اور آنے والے دن زیادہ انتشار کے ہیں۔دوسری طرف ترجیحات میں الخدمت کھڑی ہے زندگیاں بچانے کے لئے اس کے کارکن سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ محمد شعیب کی مہربانی کہ مجھے الخدمت کے مرکز میں عبدالشکور صاحب اور دوسرے کچھ ڈاکٹرز کی باتیں سننے کا موقع دیا۔اصل میں اس وقت مسئلہ سیلاب زدگان میں پھیلتی ہوئی بیماریوں کا تدارک ہے۔الخدمت والے کیسے انتھک لوگ ہیں کہ تسلسل کے ساتھ پہلے انہیں آبی آفت سے نکالتے رہے ان کی خوراک کا بندوبست کرتے رہے اور اب ان کی بحالی کے مرحلے سے نبرد آزما ہیں۔یہ دنیا ہی بالکل الگ ہے کہ جس میں انسانیت نظر آتی ہے دنیا داری سے یکسر مختلف۔ کہ جہاں یوں بھی کہا جا سکتا ہے: محبت بار ہوتی جا رہی ہے یہ دنیا دار ہوتی جا رہی ہے جو راہ ہموار ہوتی جا رہی ہے وہی دشوار ہوتی جا رہی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عام طور پر ہم دیکھتے ہیں ادارے بھی معاملات نمٹانے اور سلجھانے میں بے بس ہو چکے ہیں۔لوگ اتنے مصروف ہیں کہ کسی دوسرے کا کوئی دھیان ہی نہیں اور دوسری جانب اللہ کا خوف رکھنے والے جو فی سبیل اللہ متاثرین کو سنبھالنے میں جتے ہوئے ہیں خاص طور پر عورتوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔زچہ بچہ کا خیال کرنا یا پھر جو امید سے ہیں کہ ایک تو بے گھری ہے خوراک کی کمی ہے اور پھر دوائی کے پیسے بھی نہیں حکومت جہاں یکسر ناکام نظر آتی ہے وہاں الخدمت دکھائی دیتی ہے ۔میں تو ان کا سیٹ اپ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔میں تو پہلے بھی ان کا معترف ہوں اور میری فیملی اعانت بھی انہی کی کرتی ہے لیکن اس مرتبہ تو منظر ہی اور تھا۔ شعیب نے میڈیکل موونگ یونٹ کا معائنہ کروایا۔جدید ترین ہر سہولت ایک بڑے ڈبے میں موجود غالباً بارہ یونٹ تھے تفصیل تو ممکن نہیں۔ یونائٹیڈ نیشن کے سیکرٹری سے بھی عبدالشکور صاحب کی ملاقات ہوئی اور اس نے الخدمت کے کام کو بہت سراہا۔خبر اس کے بارے میں آپ پہلے بھی اخبارات میں دیکھ چکے ہونگے کہ یورپی میڈیا نے بھی الخدمت کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کیا۔وہی جو کہا جاتا ہے کہ خدمت سے خدا ملتا ہے۔تو واقعتاً یہ خدا والے نظر آتے ہیں۔اس سے پیشتر ہی میں یہاں آیا تھا کہ جب کورونا کی وباء تھی تب بھی ان کی کارکردگی مثالی تھی کہ لوگ اپنے اقربا کی لاشوں کے قریب جاتے ڈرتے تھے مگر یہ اللہ والے جذبہ ایمانی سے ان لاشوں کو اٹھاتے اور تجہیز و تکفین کے سارے مراحل بخوبی نبھاتے اب تو الخدمت ایک بڑا کارواں ہے تین سو سے اوپر لوگ تو مرکزی دفتر میں کام کر رہے ہیں پورے ملک میں تو اللہ کی رضا کے لئے ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہزاروں لوگ ہیں۔ مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ جو عملہ ان کے پاس تنخواہوں پر ہے ان کا بھی وہ بہت خیال رکھتے ہیں وہ ساری مراعات و سہولیات جو سرکاری ملازموں کی ہوتی ہیں تاکہ وہ توجہ سے کام کر سکیں۔میں نے ڈرائیور خالد صاحب سے گفتگو کی کہ کچھ معلوم کروں تو پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی اوبر چھوڑ کر الخدمت میں ملازمت کی کہ ایک تو یہ عظیم کام ہے دوسرا یہ ادارہ اپنے ملازمین کو میڈیکل وغیرہ فری مہیا کرتا ہے۔وہ ڈرائیور جو مجھے چھوڑ کر گیا اس کام شفیق تھا اس نے بتایا کہ وہ کراچی کا ہے پندرہ دن کراچی اور پندرہ دن لاہور اس کی ڈیوٹی ہے۔وہ بہت مطمئن اور خوش ہے وہاں میڈیا کے کافی لوگ تھے۔ایک بات پر میں مسکرا دیا کہ ہم مہمانوں کے لئے جو چائے کا اہتمام تھا وہ نہ ہی پوچھیں تین چار کے لئے ایک پرچ میں چند بسکٹ اور ایک سلائس سینڈ وچ تھا اچھا لگا کہ وہ لوگوں کی اعانت کا پیسہ ہم جیسوں کی چائے پر نہیں اڑاتے۔ بس یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ملک کے لئے کیا کر رہے ہیں کیا ہماری سرگرمی اپنے ملک ے لئے مفید ہے یا بے کار ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہم سے ہماری صلاحیتوں کا حساب لینا ہے ہاں ایک بات ذھن میں آئی کہ یہ جو مبالغے کی حد تک فنڈز کے جمع ہونے کا اعلان کرتے ہیں الخدمت کو اعلانیہ پیش کریں تو وہ اپنا فرض نبھا دیں گے یہ لوگ تو ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ہیں میں نے عبدالشکور صاحب کو بتایا کہ ہمارا اخبار اس کار خیر میں آگے ہے سعدیہ قریشی کا بھی بتایا کہ انہوں نے دو مفصل کالم لکھے۔دو اشعار: کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکان سے کاسۂ سر پھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا