کوئی پلکوں پہ لے کے وفا کے دیے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لئے زخم اپنے بھی دل پر لگے تھے بہت خود ہی بھرتے گئے جب نہ تم نے سیے اور ایسے میں ایک اور خیال عود کر آیا کہ کتنی تیزی سے سب کا بڑھنے لگے وقت، گھٹتا گیا ہر کسی کے لئے۔ اپنی مٹھی میں کوئی بھی لمحہ نہیں اور کہنے کو ہم کتنے برسوں جیئے۔ نہایت دلچسپ سی باتیں میرے پاس ہیں اور ہیں بھی دل سے متعلق کہ شاعر کے پاس دل ہی تو ہوتا ہے جو اکثر چوری ہو جاتا ہے یا پھر خود شاعر کسی نہ کسی کو دھکے سے دے چھوڑتا ہے۔ وہی جو داغ نے کہا تھا دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں الٹی شکائتیں ہوئیں احسان تو گیا۔یہ دل سب ہی کا مسئلہ رہا ہے غالب نے کہا دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ۔ عرصہ دراز کے بعد ہمارے دوست اور مشہور شاعر اشرف جاوید گھر پر تشریف لائے تو مسرت ہوئی کہ اے ذوق کسی ہمدرد دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضرسے۔ حال وال معلوم ہوا تو بات دل پر آ کر رک گئی۔ یہ معاملہ دل ہی کا تھا قبلہ نے بتایا کہ وہ دل کا شکار ہوئے اور صاحب فراش ہی نہیں رہے بلکہ ان کا بائی پاس ہوا پھر انہوں نے سرجری کی ساری کہانی بیان کر دی جو کہ واقعتاً انوکھی اور منفرد تھی اسی لئے آپ کے ساتھ شیئر کرنے کو جی چاہا اس میں ایک امید افزا پیغام بھی ہے اسی قسم کا واقعہ بہت سال پہلے ہمارے پیارے بزرگ دوست شہزاد احمد کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ اشرف جاوید نے بتایا کہ وہ معمول کا چیک اپ کروانے گئے تو چاروں والو بند نکلے ایک کچھ کام کر رہا تھا یعنی ساڑھے تین والو بند تھے وہی جو مصحفی نے کہا تھا: مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا اس کی میجر سرجری ہوئی جو اپنی مثال آپ تھی۔ اللہ نے ہمارے دوست کو شفا یاب کیا۔وہ بتانے لگے کہ شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ڈاکٹرز کو دل نکال کر باہر رکھنا پڑا اور یہ دل پانچ گھنٹے تک اکیلا پڑا رہا یہ سن کر مجھے تو قاسم جاوید یاد آ گیا کہ کہتا ہے میرے جینے کی ایک صورت ہے میرے سینے سے دل نکل جائے تو صاحب دل کو نکالنا پڑے چاروں نالیاں نئی ڈالنا پڑیں اشرف جاوید نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ حیرت ہے پانچ گھنٹے کے بعد جب دل جوڑا گیا تو پھر چل پڑا ڈاکٹر نے نہایت خوبصورت بات کی قبلہ یہ دل ہم نے نکال کر رکھا تھا اللہ نہیں نکالا تھا وہ نکالتا تو ہم چلا نہیں سکتے تھے اس دل کے اندر ابھی دھڑکنیں اللہ نے رکھی ہوئی تھیں۔سات گھنٹے کے آپریشن کے بعد ہمارے دوست نے دل پر ہاتھ رکھ کرکیا محسوس کیا، مومن نے کہا: حال دل یار کو لکھوں کیونکر ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا چونکہ اشرف جاوید سٹیٹ بنک کے بعد مجلس ترقی ادب میں شہزاد احمد کے ساتھ کام بھی کرتے رہے ہیں اور شہزاد احمد مجھے بھی فیملی ممبر سمجھتے تھے دل کے معاملے ایک قدر مشترک بھی آ گئی اور دوسرا یہ کہ یکم اگست تو شہزاد احمد کی گیارہویں برسی بھی تھی اس دن ان کے لئے توصیف احمد نے ایک شاندار مضمون بھی لگایا تھا۔ شہزاد احمد ویسے بھی صاحب دل تھے اور انہیں دل کا عارضہ بھی تھا ان کا قصہ بھی بہت عجیب اور دلچسپ ہے کہ کراچی میں 1984ء کی بات ہے جب ڈاکٹرز نے انہیں مردہ ڈکلیئر کر دیا۔ شہزاد احمد نے مجھے بتایا کہ وہ سٹریچر پر یہ ساری کارروائی دیکھ بھی رہے تھے اور سن بھی رہے تھے مگر وہ ساکت تھے جسم کی حرکت ان کے بس میں نہیں تھی گھر والے رو رہے تھے۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ ان کے ہاتھ میں تھا جب وہ سٹیچر کو مردہ خانے کے لئے لے جانے لگے تو پتہ نہیں ڈاکٹر کے دل میں کیا آئی کہ آواز دے کر گھر والوں کو بلایا سٹیچر واپس دھکیلا گیا۔ ڈاکٹر ایک ٹرائی کی تو جھٹکے کے ساتھ میرا جسم ہلا بس اللہ نے زندگی رکھی ہوئی تھی بالکل دوسری زندگی بس اسی طرح کی دوسری زندگی اشرف جاوید کو ملی بلکہ انہوں نے تو اس عالم میں بھی شعر کہا کہ وہ ایک زندگی جی چکے اور دوسری کا آغاز ہوا۔ ان دو واقعات میں ایک امید ہے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں ویسے بھی اللہ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کے اذن کے بغیر کوئی بھی شخص نہ ایک سانس زیادہ لے سکتا ہے اور نہ کم یہ سب اسی کا اختیار ہے۔شہزاد صاحب اپنی موت کے اعلان کے بعد بھی 24سال تک زندہ رہے ایک اور مزے کی بات کہ جب اس کے بعد شہزاد احمد صاحب کا شعری مجموعہ آیا تو اس کا نام تھا ٹوٹا ہوا پل یعنی وہ پل جسے ڈاکٹر نے یادگار بنا دیا اس شعری مجموعے کا انتساب ابھی اسی ڈاکٹر کے نام ہے۔ زندگی جو بھی ہے بیم و رجا سے عبارت ہے کیسا اتفاق کے دل کی بات ہو رہی تھی تو اندوہ ناک خبر آئی کہ ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر کوثر محمود حرکت قلب بند ہونے سے چل بسے وہ ایک ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ نظم کے منفرد اور خوبصورت شاعر کبھی ان پر پورا کالم لکھوں گا وہ راجہ فیملی سے تھے سیاسی خانوادہ وہ خود ملک کے چوٹی کے ڈینٹل سرجنز میں سے تھے پڑھاتے تھے علاوہ ازیں وہ عربی فارسی فرانسیسی جیسی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے مترجم بھی تھے خاندانی اور وضعدار آدمی جب وہ لاہور تھے تو ان سے ہماری محفلیں سجھتی تھیں۔ پرانی انارکلی میں منڈلی جمتی۔سرخ و سپید رنگ کے مالک ایک اعلیٰ تہذیب کے نمائندہ تھے مسکراتے رہتے اور ہمیشہ دلنشین سی بات کرتے بے شمار شاعر اور شاعرات اس خبر پر بہت غمگین نظر آتے ہیں۔مگر کیا کیا جائے مشیت ایزدی ہے۔