میری آنکھوں میں چھپی اک کمی سی رہ گئی میں نے جب بھی بات کی اک کمی سی رہ گئی کیا سنا اور کیا کہا کیا پڑھا اور کیا لکھا کچھ کہی کچھ ان کہی اک کمی سی رہ گئی بس کیا کریں ہم کچھ ایسے ہی ہیں‘ بات میں پختگی نہیں آتی کیا کیا جائے مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں، ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں ۔ اخبارات میں میں رابی پیرزادہ کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر شائع ہوئی ہے کہ وہ ہر جنگلی جانور کو قابو کر سکتی ہیں ۔سانپ بھیڑیا یا شیر نکل آئے تو وہ رابی پیرزادہ کو بلا لیں۔بقول ان کے جانوروں کو کنٹرول کرنے کا عمل یا ہنر انہیں خدا نے عطا کیا ہے۔ ویسے میرا تو اس پر یقین ہے کہ ایک عورت ہی میں یہ ہنر ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے طرم خاں ہم نے عورتوں کے دم بھرتے دیکھے ہیں۔بڑے بڑے وحشی قسم کے لوگ بھی اس جگہ ڈھیر ہو جاتے ہیں ۔آپ اس دعویٰ کو باطل نہ سمجھیں۔آپ کو معلوم نہیں کہ لوگ تو جنات اور ہمزاد کو بھی قابو کر لیتے ہیں۔ جنات درندوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کہ یہ نظر نہیں آتے اور جس کو چاہے چمٹ جاتے ہیں یا اندر داخل ہو جاتے ہیں۔اور یہ ہر سطح پر ہو سکتے ہیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی۔آپ کو کیا علم کہ اگر کوئی ملک کا سربراہ ہے تو وہ اپنی مرضی سے نظام و حکومت چلا سکے ۔عین ممکن ہے کہ اس کے اندر بیٹھا جن ہی اس کو ہدایات دے رہا ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے وہ جن ہی اس کو سکیورٹی شورٹی دے چکا ہو، ایسے جنات کے مفادات بھی بڑے بڑے ہوتے ہیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سیاست دان نہیں ہوتے بلکہ سیاستدان ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ ویسے انسانوں کو کنٹرول کرنا درندوں کو کنٹرول کرنے سے زیادہ مشکل ہے کہ انسان دماغ بھی رکھتا ہے اور سوچ بھی اس نے کیسے بڑے بڑے طاقتور جانوروں کو پکڑ کر چڑیا گھر بنا دیا اور شیر کو سرکس میں لے آیا۔ جارج آرویل کے ناول اینمل فارم میں تو ہم نے دیکھا کہ اقتدار مل جانے پر جانور بھی عین وہی کام کرتے ہیں جو انسان کرتے ہیں۔ اقتدار اور طاقت ہی اصل میں برائی کی جڑ ہے۔مارک ٹون نے بھی یہی لکھا تھا کہ جانور یعنی شیر اور چیتا وغیرہ شکار کرتا ہے تو ایک ہرن کو کئی مل کر کھاتے ہیں۔انسان کئی جانوروں کو شکار کرتا ہے تو سپورٹ کے لئے۔گوشت تو وہ پائو بھر ہی کھا پاتا ہے اس نے یہ بھی تجربہ کیا تھا کہ انسانوں کو اکٹھا کیا تو وہ لڑ لڑ کر مر گئے جبکہ جانوروں ایک جگہ رکھا تھا اتنا برا حال نہیں ہوا۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی ہے تو یہاں بڑے لوگ کیسے عام آدمی کو روٹی سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ رابی پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اگر شیر بھیڑیا یا سانپ نکل آئے تو انہیں بلا لیا جائے ایسی صورت میں کہ سامنے شیر بھیڑیا یا سانپ ہو تو کس میں اتنی سکت رہے گی کہ انہیںبلانے جائے۔وہ جو کسی نے پوچھا تھا کہ سامنے شیر آ جائے تو کیا کرو گے اس نے جواباً کہا میں نے کیا کرنا ہے پھر تو جو کرنا ہے شیر ہی نے کرنا ہے میرا ذاتی خیال ہے کہ محترمہ نے یہ علامتی بات کی ہے اس سے سچ مچ کا شیر یا بھیڑیا مراد نہیں بلکہ ان صفات سے مالا مال کوئی انسان ہو سکتا ہے ایسے ہی دو شعر ذہن میں آ گئے: اس نے کہا کہ زندگی پھولوں کی سیج کس طرح میں نے کہا کہ اے حسیں پھول لب ہلا کر یوں اس نے کہا بتائو تو لگتے ہیں زخم کس طرح میں نے کہا اے جان من تھوڑا سا مسکرا کہ یوں ان کا علاج بھی تو اسی طرح کا ہوتا ہے ۔میں نے کہا کہ عشق میں جیتے ہیں لوگ کس طرح، اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہیوں۔آپ بات تو سمجھ گئے ہونگے صنف نازک کے سامنے بڑے بڑے آئرن مین موم ہو جاتے ہیں۔ان کا ایک آنسو بڑے بڑے سنگ دلوں کو پگھلا دیتا ہے میں موضوع کی طرف آتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ انسانوں کو قابو کرنا آسان نہیں ا۔یک عمران خان پوری پی ڈی ایم کے قابو میں نہیں آ رہے ۔پنجاب پولیس رانا ثناء اللہ کو زیر دام نہیں لا سکی ،مولانا فضل الرحمن کے سامنے نیب بے بس تھی شہباز شریف اور اسحق ڈار کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ جو سیاستدان ہیں آپ انہیں کسی بھی طرح نہیں پکڑ سکتے۔منی لانڈرنگ ہو یا کوئی اور جرم خواہ قتل ہی کیوں نہ ہو‘ عدالتیں تک انہیں پکڑ نہیں سکتیں کہ وہ تو ثبوت پر چلتی ہیں ۔ثبوت کون چھوڑتا ہے پھر اس کے بعد کون ثابت کرے کہ یہ ثبوت صحت مند اور درست ہے یہاں تو کوئی یہ بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ زندہ ہے سرٹیفکیٹ حکومت سے لینا پڑے گا ہاں جو عادی مجرم ہوں ان کے لئے گواہ بھی مہیا کر دیے جاتے ہیں۔ سارا نظام آپ کے سامنے ہے ہاں خوش گمانی الگ بات ہے کہ بقول قتیل شفائی: ہم کاغذی گلوں سے بھی رکھتے نہیں ہیں بیر اپنی تو یہ دعا ہے انہیں بھی مہک ملے سانپ کے حوالے سے تو کہا جاتا ہے کہ سپاں دے پتر کدی متر نہیں ہوندے پانویں چولیاں دودھ پیائیے۔ آخری بات یہ کہ سچ مچ درندے اتنے خطرناک نہیں ہوتے جتنے خود انسان۔اب دیکھیے ناں عمران خاں کہہ رہے ہیں کہ چور میری غلط ویڈیوز تیار کر رہے ہیں یعنی چور اپنا دھندا چھوڑ کر ویڈیوز کا دھندا کر رہے ہیں۔ اس عہد میں تو ایسے لگتا ہے کہ ایسے کیمرے آ گئے ہیں جو دیوار کے باہر سے بھی دیوار کے پیچھے کے مناظر دکھا دیتے ہیں۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔فی الحال تو لوگ خان صاحب کی اسلام آباد پر یلغار اور رانا ثناء اللہ کا انتظار دیکھ رہے ہیں۔