خلفشار بڑھتا ہی جارہا ہے۔سیاسی انتشار کے اثرات اب ریاستی اداروں پر بھی نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔سیاست میں گہری ہوتی تقسیم نے ان اداروں کو بھی،جو دستور کے محافظ اور نگہبان سمجھے جاتے ہیںاور جن پر اعتبار کیا جانا محترم اور ناگزیر تھا،متاثر کر دیا ہے اور وہ اب اپنی کارکردگی کے باعث ابلاغ کی ہر سطح پر تنقیدو تنفر کی زد میں ہیں ۔ اس صورت حال کا استقرارکسی بھی لحاظ سے ریاست کے حق میں نہیں ہے۔ریاستوں کا وجود اور استحکام اداروں کے استحکام پر انحصار کرتا ہے ادارے اس وقت مستحکم ہوتے ہیں جب وہ اپنے تفویض شدہ فرائض دستور میں موجود حدود وقیود کے مطابق انجام دے رہے ہوں ۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔سیاسی انتظامی اور دیگر ریاستی ادارے جو پہلے ہی انحطاط کا شکار تھے اب انا ، اختیارات اور بالا دستی کی کشمکش ( بلکہ جنگ) میںتباہی کی طر ف تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں ۔پاکستان کے جغرافیہ میں موجود ترقی کے روشن امکانات حکمرانی کے بے رحم کھلاڑیوں نے تاریکی میں بدل دیئے ہیں۔فیصلہ ساز اداروں اور شخصیات نے بار بار کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود ریاستی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں وفاق میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جو سیاسی بحران شروع ہوا تھا وہ اب سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث ایک سنگین بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔جو مسائل سیاست دانوں کو پارلیمنٹ میں حل کرنے تھے وہ اب سڑکوں سے ہوتے ہوئے عدالتوں میںپہنچ گئے ہیںجس سے ایک طرف اعلی عدالتوں پر کام کا غیر ضروری دبائو بڑھا تو دوسری طرف سیاسی معاملات میں مسلسل شمولیت سے عدلیہ کی ساکھ بھی متاثر ہونے لگی اور اس کے فیصلوں کے سیاسی اثرات نے عدلیہ کی غیر جانبداری اور وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچادیا نہ صرف یہ کہ عوامی اور سیاسی سطح پر اس کی اداراتی حیثیت کو نشانہ بنایا جانے لگا بلکہ عدلیہ میں بھی اب تقسیم و تفریق کھل کر سامنے آچکی ہے جو اس ادارے کے ساتھ ساتھ ریاست کے لئے بھی انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے۔اس سنگین صورت حال کی بنیادی ذمہ داری اگرچہ سیاست دانوں ہی کی ہے تاہم جان کی امان پائوں تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اس میں اعلی عدلیہ کی غیر معمولی دلچسپی اور بیشتر معاملات میں ا ز خود مداخلت کے رجحان نے بھی حالات کو اس نہج تک پہنچایا۔اپنی کم مائیگی اور کم اثر حیثیت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ان ہی کالموں میں بہت پہلے اس بات کی نشان دہی کر دی تھی کہ اعلی عدالتوں کو سیاسی معاملات میں کم سے کم مداخلت کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے سیاسی امور طے کئے جانے کے لئے سیاسی اداروں اور سیاست دانوں کوعدالتی حکم کے ذریعہ پابند کیا جا ئے کہ وہ اپنے مسائل اور تنازعات کو خود حل کریں مگر ایسا نہیں ہو سکا اور اب حالات بتدریج اس مقام تک جارہے ہیں جہاں سے واپسی کے تمام راستے ( خدا نخواستہ ) بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نوے روز میںکرانے کی تاریخ کے تعین کے سلسلے میں حکومت کے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کی وجہ سے مخمصے کا شکار رہا ۔ اس معاملے میں صدر پاکستان نے مداخلت کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کردی تاہم الیکشن کمیشن نے جسے بوجوہ ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے ان انتخابات کے لئے 8 اکتوبر کی تاریخ دے دی۔ جس پر اعلی عدلیہ کی تین رکنی بنچ نے از خود نوٹس (SUO MOTU) لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کرتے ہوئے 14 مئی کی نئی تاریخ کے لئے حکمنامہ جاری کیا ہے۔ حکومت اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کیوںکہ وہ اس تین رکنی بنچ سے مطمئن نہیں تھے اور ان کا مطالبہ فل کورٹ بنچ کے ذریعہ سماعت کا تھا،جسے چیف جسٹس نے قابل توجہ نہیں سمجھا حالانکہ اس تین رکنی بنچ پر اعلی عدلیہ کے بھی کچھ ججز معترض تھے بلکہ ان کے خیال میں اس معاملہ میں چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینا بھی ضروری نہیں تھا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر حکومت کا جو رد عمل آیا ہے اس سے حالات کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے ۔عدلیہ ہو یا پارلیمنٹ ، سیاست دان اقتدار میں ہوں یا اس سے باہر، صدر ہوں یا گورنر ہر ایک کی کارکردگی دستوری اور جمہوری تقاضوں کے بجائے شخصی انا کی تسکین اور جماعتی مفادات کے تحفظ کے لئے سامنے آتی رہی ہے۔ عدالتیں، الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کے درمیان موجودہ محاذ آرائی نے نہ صرف سیاسی نظام کی ناکامی کو ظاہر کر دیا ہے بلکہ قومی سطح پر بڑھتے ہوئے انتشار نے ملکی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔حد سے بڑھتی ہوئی عدالتی فعالیت کے عمل نے عدلیہ کو بھی سیاسی سطح پر ایک فریق بنادیا ہے جس سے لا محالہ اس کی غیر جانبداری اور وقار کو شدید زک پہنچی ہے۔ عدلیہ کو ہر ممکن حد تک اپنے دامن کو اس سے بچانا چاہیئے تھا ۔عاقبت نا اندیش سیاسی قیادت جو جمہوری مبادیات او ر اوصاف سے بے بہرہ ہے وہ اس صورت حال کو مزید خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ملک کا مستقبل پہلے ہی ڈوبتی ہوئی معیشت ،داخلی سلامتی کو در پیش خطرات اورخطے کی بدلتی ہوئی سیاسی تبدیلیوں کے باعث غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے اب اداروں کی یہ محاذ آرائی اسے اور بھی مخدوش بنا رہی ہے۔ کیا سیاست دانوں ، اداروں اور اہم ذمہ دار مناصب پر موجود فیصلہ سازوں کواس ملک کے مستقبل سے اور اس کے عوام کی آسود گی سے ذرا بھی دلچسپی نہیں رہی۔خدا را اپنے شخصی مفادات اور انا کو پس پشت ڈال دیجئے ۔ضد پر مبنی رویوں کو ترک کرتے ہوئے فیصلہ عوام کو کرنے دیجئے کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے اور درست آئینی راستہ بھی۔