دنیا فریب اور دھوکے کا گھر ہے اور مچھر کا پر ہے۔ ابلیس لعین ایک مرتبہ کسی بزرگ کے سامنے بڑی خوب صورت شکل میں سامنے آئے جس پر اُس بزرگ نے متاثر ہو کر پوچھا کہ اتنا حُسن تجھ میں کیسے آگیا ۔ تو ابلیس نے جواب دیا کہ میں اگر تمہیں اپنی اصلیت دکھا دوں تو تم میری وحشت اور شکل دیکھ کرحواس کھو بیٹھو گے کیونکہ یہ میرا دنیا کا ایک فریبی روپ ہے جبکہ اب میں تمہیں اپنا اصل روپ دکھاتا ہوں تو اِس دوران ابلیس نے کروٹ بدلی اور اپنے اصل روپ میں ظاہر ہو گیا اور بتایا کہ یہ وہ مکرو روپ ہے کہ جس کے پیچھے نسل آدم دیوانی ہوئی پھرتی ہے۔ بزرگ دنیا کی اصل شکل دیکھ کر بے ہوش ہو گئے کیونکہ دنیا کی اصل شکل واقعی اتنی ہولناک اور وحشت ناک ہے ۔حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے دنیا کے بارے میں ایسے تو نہیں فرمایا تھا کہ اے دنیا میں (علیؓ) نے تجھے تین طلاقیں دی ہوئی ہیں اور جا مجھ سے دور ہو جا کیونکہ تین طلاقوں کے بعد بیوی اپنے مرد پر حرام ہو جاتی ہے۔ اس لیے حضرت علیؓ نے دنیا کو اپنے لیے ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا ہوا تھا ور پھر فرمایا کہ دنیا کی خواہشات زخم ہوتی ہیں اگر اِن خوہشات پر قناعت کا مرہم لگا دیا جائے تو انسان اِن خواہشات سے بچ سکتا ہے۔ ہماری خواہشات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہر وقت یہی دھن سوار ہے کہ ’’ہو فتین نرالہ ہو زینت نرالی ‘‘ کیا جس نے مر جانا ہو اور جس کا ایک دن وجود بھی قبر کی غذا بن جائے گا ۔وہ اِس طرح سے جیتا ہے جیسے ہم جی رہے ہیں اکابرین کی زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کتنی سادگی اور وقار کے ساتھ بسر کی ۔زندگی کیا اِسی کا نام ہے کہ ہر وقت انسان صرف اپنے لیے ہی سوچتا رہے جہاں پر اپنے مفادات ہوں تو وہاں پر ہر چیز جائز ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل سب کچھ ایسے ہی چل رہا ہے ۔ ہمارے سیاست دان جو کہ شہرت اور صرف شہرت کے بھوکے ہیں اُن پر تو ہمیشہ یہی دھن سوار ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہم پلہ دوسرے سیاست دان سے اِس دنیا کی شہرت اور بلندی کے لیے بازی لیں جائیں۔ صرف یہ صورتحال ایک سیاست دان پر نہیں روکتی بلکہ آج کے دور میں تو ہم سب اِسی دوڑ میں شامل ہیں ۔ ہمارے ملک کا کوئی ایک ا یسا ادارہ ہو گا جودنیا کے چکر سے محفوظ ہو تما م بڑے اداروں میں بغیر رشوت اور کمیشن دیئے آپ جتنے بھی با اثر کیوں نہیں ہیں آپ کا کام ہو ہی نہیں سکتا ۔ افسوس کہ جس اولاد کی خاطر ہم کرپشن کی دوڑ میں نمبر ایک حاصل کرنے کے چکر میں ہیں وہی اولاد قبر پر فاتحہ پڑھنے نہیں آتی ہم سب کو معلوم ہے کہ ہم نے ایک دن مرنا ہے ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے بچے ہمارے مرنے کے بعد ہماری قبروں پر نہیں آئیں گے لیکن پھر بھی اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کی خاطر ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی اسلامی شریعت میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اِس وقت ہمارے ملک میں ہر کوئی جائز نا جائز طریقے سے صرف دولت اکٹھی کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بڑی بڑی پر آرائش گاڑیاں اور محل نما کوٹھیاں اور پھر اُن کے اندر عیاشی کا تمام سامان۔ دنیااور اِس کی زیب زینت سب عارضی اور نا پیدار ہیں۔ حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب صورت بات اپنی لازوال شاعری کے ذریعے کی ہے ۔ یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند /بتان وہم گماں لا اللہ الا اللہ یہ دنیا میں ایک دوسرے کی دوستیاں یہ رشتہ داریاں اور پھر مال دولت یہ سب کچھ عارضی اور ختم ہو جانے والی چیزیں ہیں ۔ انسان کے پاس جب دولت اور اقتدار ہوتا ہے اور پھر اُس کی قوم اور قبیلہ پھر بڑا خاندان اور اُس کی طاقت تو ایک کم ظرف انسان بڑے تکبر میں آجاتا ہے کہ بس میں ہی اِس دنیا میں پیدا ہوا ہوں باقی لوگ میرے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے اِسی نقطہ سے ایک بڑے اور طاقت ور انسان کا زوال شروع ہوتا ہے ۔ نواب کالا باغ ، ملک امیر محمد خان ، ایوب خان کے دور اقتدار میں گورنر مغربی پاکستان تھے ۔پورے ملک میں اُن کا طوطی بولتا کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے بڑے سخت گیر انسان تھے لیکن اپنی کچھ انسانی خامیوں کے باوجود وہ بڑے با اصول اور دیانت دار شخص تھے۔ گورنر ہاؤ س لاہور میں پانچ سال سے زائد عرصہ تک مقیم رہے لیکن اِسی دوران اُن کی خوراک کا سارا سامان کالا باغ سے آتا اور اُن کے میجر بخشا پراچہ کے پاس سارا حساب کتاب ہوا کرتا ۔ نواب صاحب بڑی بار عب شخصیت ہے جب کبھی ترنگ میں ہوتے تو اپنی بڑی مونچھوں کو تاؤ دے کر کہا کرتے کہ یہ قانون اور اختیار ہے میں جس طرح سے کروں لیکن کیا ہوا آخر اپنے ہی گھر کے چراغ سے آگ لگی اور نام و نشان تک مٹ گیا ۔آج کالا باغ میں اُن کا بوہڑ بنگلہ پھر کسی ا میر محمد خان اعوان کا منتظر ہے ۔ جو دریائے سندھ کے کنارے ویسے کا ویسا کھڑا ہے بلکہ جو صدیوں سال پرانا بوہڑ کا درخت نواب صاحب کے دادا نے لگایا تھا وہ بھی ویسے ہی سر سبز کھڑا ہے ۔ انسان اپنی مختصر سی زندگی میں اِس خود فریبی کا شکار ہو جاتا ہے کہ شاید اُس کے بغیر دنیا کچھ بھی نہیں ہے لیکن ایک دن آتا ہے کہ یہ طاقت ور اور با اثر انسان اِسی دنیا سے روانہ ہو جاتا ہے اور قدرت کا نظام ایک سیکنڈ کے لیے بھی متاثر نہیں ہوتا اور یہ قدرت کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اُس کا نظام وقت اور زمانے کی شکل میں ہر صورت چلتا ہے ’’اور ہم نہیں ہونگے تو کسی اور کے چرچے ہونگے ۔ ‘‘