اکثر ہدایت کار تو خوش ہیں کہ وہ حکومت کی پالیسی کی تشہیر کرتے ہیں اور یہ رشتہ باہمی طور پر مفید ہے۔تاریخ اس قدر مسخ کی جا رہی ہے کہ ان فلموں کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔ سمراٹ پرتھوی راج فلم میں بتایا گیا ہے کہ پرتھوی راج نے محمد غوری کو قتل کردیا تھا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غوری تو 1206تک زندہ تھا، اور پرتھوی راج کی موت 1192میں ہوئی تھی۔ پدماوت فلم میں تو علاوالدین خلجی کو ایک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے، مگران فلموں سے جو ذہن سازی ہوتی ہے۔ اس سے مسلمانوں کے تئیں نفرت کا ایک ماحول بن جاتا ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ ان بادشاہوں کے وزیر اور جرنیل ہندو ہوتے تھے۔ مغل فرمانروا اورنگزیب، جو سب سے زیادہ نشانہ پر ہے، نے مندروں کو جاگیریں عطا کیں اور اپنے پیشروؤں سے زیادہ غیر مسلموں کو ملازمتیں دیں۔ ایک ہزار سالہ مسلم دور کو ایک تاریک دور کے طور پرپیش کیا جاتا ہے اور اس میں تو وزیر اعظم خود ہی پیش پیش ہیں۔ شہروں اور دیہات کے ناموں کو تبدیل کرکے اس تاریخ کو ختم کرکے اور مسلمانوں کو بیگانہ کیا جا رہا ہے۔ الہ آباد کو پریاگ راج، مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے ، فیض آباد کو ایودھیا تو بس کئی نام ہیں۔ آگرہ کا نام اگرون، بریلی کا نام مہا رشی وشیشٹ کرنے کی تیاریاں ہیں۔ اس کے بعد پتہ نہیں بریلوی مکتبہ فکر کے افراد اپنے آپ کو کس نام سے پکاریں گے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ برطانوی حکومت سے لوہا لینے والے سلطان ٹیپو کے نام پر ٹرین ٹیپو ایکسپریس کا نام تبدیل کرکے ووڈیار ایکسپریس رکھا گیا۔ ووڈیار راجہ نے غداری کرکے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ مصنف ضیاء السلام کا کہنا ہے کہ یہ کوئی اکا دکا واقعات نہیں ہیں ، بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ روبہ عمل لائے جا رہے ہیں، جس سے یہ باور کرایا جائے کہ غیر ہندو باہر سے آیا ہے اور اس نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور نفرت کے قابل ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں نے زیادتیاں کی بھی ہیں تو اس کیلئے بغیر کسی استثناء کے پوری مسلم برادری کو اکیسویں صدی میں نشانہ بنانا کیسے جائز ہے؟ اب ایک نیا حربہ بلڈوزر جسٹس کا شروع ہو گیا ہے۔ مصنف کے بقول آج کے بھارت میں بلڈوزر ایک جارح اسٹیٹ کی علامت بن چکا ہے، جو مسلمانوں میں ایک خوف پیدا کردیتا ہے۔ الہ آباد کے محمد جاوید کا گھر بلڈوزر سے صرف اس وجہ سے تہس نہس کر دیا گیا کہ اس نے ایک احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت رام نومی یا ہنومان جینتی یا کسی اور ہندو تیوہار کے موقع پر کھلی ٹرکوں یا ٹمپووں میں ایک جلوس کسی مسلم محلے میں وارد ہو جاتا ہے۔خاص طور پر مسجد کے پاس یہ جلوس رک کر اشتعال انگیز نعرے بازی کرتا ہے۔ پہلے ہندوستان میں رہنا ہوگا، جے شری رام کہنا ہوگا اور پھر جب اس کا کوئی رد عمل نہیں آتا ہے، تو اس سے بھی برے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ تلواریں لہرا کر ایک پورے والیوم کے ساتھ ڈی جے بجانا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب مسجد کے اندر لوگ نماز ادا کررہے ہوتے ہیں۔ اب اسی دوران کوئی مسجد کے منارے پر چڑھ کر گیروا جھنڈا لہرا کر فتح کا اعلان کرتا ہے۔ اب بس دیر اس بات کی ہے کہ کوئی مسجد کے اندر سے یا باہر سے جلوس پر کوئی کنکر پھینکے۔ اس کنکر کے ساتھ یہ جلوس ٹرکوں سے کود کر آس پاس کی دکانوں اور مکانو ں کو نشانہ بناکر لوٹ مار کرکے کسی وقت آگ کے حوالے کردیتا ہے۔ پولیس اس دوران خاموش تماشائی بنی ہوتی ہے۔کسی طرح اب اس جلوس کو آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ اور مدھیہ پردیش کے کھرگائوں کے علاوہ اس طرح کے واقعات کئی جگہوں پر پیش آئے۔ فلم ابھی ختم نہیں ہوئی۔ لوٹ پیٹ کر مسلم محلہ دار اب اپنے نقصان کا جائزہ لیکر اپنی قسمت کو س ہی رہے ہوتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے بعد پولیس کا دستہ بلڈوزروں کے ساتھ نمودار ہوجاتا ہے اور دکانوں اور مکانوں کو مسمار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اپریل 2022 کو مدھیہ پردیش میں اسی طرح 49مسلم دکان و مکان ڈھائے دئے گئے۔ اگلے دن صوبہ کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا کہ رام نومی جلوس پر پتھر پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے ان کی جائیداوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہنومان اور رام نومی کے جلوس کسی مذہبی عقیدت کے بجائے مسلمانوں پر ایک طرح کی نفسیاتی برتری اور ان کو دبائو میں رکھنے کیلئے نکالے جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں تو بس اسی لئے ایک گھر پر بلڈوزر چلایا گیا کیونکہ کسی نے شکایت کی کہ اس مکان کی چھت سے کسی نے جلوس کے اوپر تھوک دیاتھا۔ مصنف نے 1992میں بابری مسجد کی مسماری کے وقت اور آج کے حالات کا موازنہ کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی ہے۔ دہلی کے نواح نوئیڈا میں ہندوتو کے کارکنان رام مندر تحریک کے سلسلے میں گھر گھر جاکر اشتعال انگیز نعرے لگاتے تھے، تو ان کے ہندو پڑوسی ان کو دلاسہ دیکر ان کی ہمت بڑھاتے تھے۔ ’’وہ طوفان میں ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ مگر اب حالاتبالکل مختلف ہیں۔ میرے پڑوس میں اکثریتی برادری کا ایک بھی خاندان ایسا نہیں ہے جس نے 2020 میں دہلی میں ہورہے فسادات کے دوران مسلمانوں کے لیے درد کا اظہار کیا ہو۔ میرے کندھے پر بازو رکھنے کوئی میرے گھر نہیں آیا، کسی نے دلاسہ نہیں دیا۔ اس کے بجائے ہر گھر میں گیروے رنگ کا جھنڈا لگا ہوا تھا ، کچھ نے اپنی بالکنیوں سے ہنومان کی تصویریں آویزان کی تھیں۔میں نے اپنے گھر کے دروازے بند کردیے اور اپنے بچوں اور اہلیہ کو کو گھر کے اندر رہنے اور لائٹ آف کرنے کیلئے کہا۔ ہم 1992سے کتنی دور آگئے ہیں۔’’ کم و بیش ایسی ہی صورت حال کا سامنا راقم کو دہلی میں 2019میں کشمیر کے پلوامہ میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد کرنا پڑا، جب پاکستان کو سبق سکھانا انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ سوسائٹی کے چوکیدار نے ہمیں بجلی بند کرنے اور گھر کے اندر رہنے کا مشورہ دیا، جبکہ ایک مشتعل ہجوم سوسائٹی کے مین گیٹ پر نعرے بلند کررہا تھا۔ ان کے جانے کے بعد دہلی میں جائے پناہ کی تلاش میں رات بھر بھٹکتے رہے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ رات کے وقت ہجوم نے سوسائٹی کے گیٹ کو کراس کرکے ہمارے گھرکی بالکونی میں گملے وغیرہ توڑ ڈالے تھے۔ مگر خیر ہوئی کہ پولیس نے ان کو جلد ہی بھگا دیا تھا۔ ضیا کی کتاب میں تقریباً تمام موضوعات ، جن میں لو جہاد، ہجومی تشدد، مساجد پر نشانہ ، حجاب اور ہندوتو وغیرہ شامل ہیں، پر بحث کی گئی ہے۔ مگر سوال ہے کہ جب بی جے پی ہمیشہ سے ہی مسلمانو ں کے تئیں ایشوز کو اپنے انتخابی موضوع بناتی تھی، تو آخر مسلم رہنماوں کو خوش فہمی کیوں تھی، کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے لیڈران کا وطیرہ بدل جائے گا۔ اس کتاب کو پڑھ کر یقینا مایوسی طاری ہو جاتی ہے۔ مگر مصنف کا خود ہی کہنا ہے کہ شاید یہ حالات ایک نئی صبح کی نوید لیکر آئیں۔امید پر دنیا قائم ہے۔