بارہ برس ہوتے ہیں ،ون شانن روڈ پرایک شام سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ صاحب ؒ کے پاس بیٹھا ہو ا تھا ،آپ ختم نبوت اورسید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ کے واقعات سنا رہے تھے ۔اچانک آپ نے ہندوستان کے چند لوگوں کے نام لیکر انھیں پڑھنے کی خاص تلقین کی ۔ان میں ایک نام مولانا سید انور شاہ کشمیری ؒ کے پوتے مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر کا نام تھا ۔ان کی تحریروں کو پڑھنا شروع کیا تو چودہ طبق روشن ہو گئے ۔خطابت میں ایک نام لکھنو کے مولانا عبد العلیم فاروقی ؒ کا تھا ۔مولانا فاروقی کی دو خصوصیات تھیں ، ایک لکھنو کی بے مثل اردو اور لہجہ ۔دوسرا مولانا عبد الشکور لکھنوی ؒ کا پوتا ہونا ۔دونوں چیزیں ہی آپ کو وراثت میں ملی تھیں ۔ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصرؒ کا انتقال 2022میں ہوا تھا لیکن ان پر کچھ لکھ نہ سکا ،وہ ایک قرض تھا ۔اب مولانا فاوقی ؒ کی رحلت ہوئی تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔ نورانی چہرہ، بڑی اور روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی، لکھنو کا نستعلیق انداز، مزاج میں شگفتگی، شیروانی، دوپلی یا گول ٹوپی، لمبا کرتا، اونچا پاجامہ۔زبان میں ایسی مٹھاس کہ سننے والا سنتا ہی جائے ۔جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقیؒ۔ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی آخری نشانیوں میں تھے ،وہ تہذیب جس میں اپنے مذہب کی پابند ی کے ساتھ ساتھ دوسرے کی عزت اور شرافت ایک پتھر کی حیثیت رکھتی ہے ۔اصول پسندی ،وضعداری ،شرافت اور سچائی ان کی طبیعت کا جزو لاینفک تھا ۔آخری دم تک اپنے دادا کے نظریات پرقائم دائم رہے ۔مولانا فاروقیؒ کا وصال کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے، جس کو معمولی سمجھ لیاجائے بلکہ امت مسلمہ کو خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کو اس سے ایک کاری زخم لگا ہے، جس کی کسک نہ معلوم کب تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ مولانا مرحوم نے اپنے عظیم دادا امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنؤی ؒ کی صحیح معنی میں جانشینی کی، آپ ؒ نے ملک وملت کی فلاح و بہبود کیلئے بڑی جانفشانی سے کام لیا، تاریخ میں ایسی کم شخصیات گزری ہیں کہ جن کی زندگی ایک تحریک رہی ہو۔ چھوٹوں سے بے انتہا محبت اور نرم گفتگو کرتے ایسا معلوم ہوتا جیسے کافی عرصہ سے جانتے ہوں۔ مولانا فاروقی ؒدارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن اور جمعیت علماء ہند کے پہلے جنرل سکریٹری اور اب نائب صدر تھے، اور اسکے علاوہ بہت سے اداروں اور جماعتوں کے رکن اور سرپرست تھے، اور بہت سی ملی و ملکی تحریکات کے بانی مبانی و مؤسس تھے۔ آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔حضرت مولانا بڑے خاندان اور بڑے باپ کے جانشین تو تھے ہی خود بھی بڑے آدمی تھے، تواضع انکسار کے پیکر، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو۔جب کوئی آپ سے ملتا تو یوں محسوس کرتا جیسے برسوں سے یارانہ ہے ۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر پرکیا لکھوں، کیسے لکھوں، جذبات امڈ رہے ہیں، مگر الفاظ ساتھ نہیں دے رہے، ذہن سپاٹ ہے، خیالات منتشر، کئی مرتبہ لکھنا شروع کیا، ایک سطر بھی نہیں ہوئی تھی کہ مضامین کی آمد بند ہوگئی، جیسے چلتے چلتے کسی گاڑی کا انجن فیل ہوجائے۔یہی وجہ تھی کہ دو برس سے ان پر لکھ ہی نہ سکا ۔آپ بھی ایک بڑے علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے ۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصربلا کے لکھاری تھے۔ زبان وقلم میں تھوڑی بھی چاشنی آجانے کے بعد انسان فکری انحراف کا شکار ہوجا تا ہے۔ مذہبی روایات،مسلکی تصلب اور اپنی تہذیب و ثقافت سے منہ موڑ کر لوگ روشن خیالی کے چکر میں مغربی افکار وخیالات کی ترویج واشاعت ہی کو اپنی کامیابی سمجھنے لگتے ہیں مگرمولاناکی جتنی بھی تحریریں اٹھا کر پڑھ لیجئے اسلامی افکار وخیالات اور نظریات کے دائرے ہی میں گلکاریاں کرتی نظر آئیں گی۔خداوند عالم نے انھیں جن عظمتوں سے سرفراز کیا ہے،وہ تاریخ کا حصہ بھی ہیں، حال کا بیان بھی اور باوقار مستقبل کا آئینہ بھی، ہندوستان کی خا ک سے وہ اہل علم اور مرد مجاہد پیدا ہوئے جو مسلماناں ہند کی زندگی میں بنیا دی کر دار کی حیثیت رکھتے ہیں یہ خو ش فہمیوں کا ابتلا نہیں، بلکہ حقائق کی وہ روشنی ہے، جو دور تک بہت دور تک بلکہ آخری حد تک پھیلی ہو ئی ہے، اندھیرے سراسیمہ اور خوف زدہ ہیں اور تاریکیاں ان کے قدموں کی چاپ سنتے ہی اپنا راستہ بدل دیتی ہیں،ان بزرگان دین کا یہ امتیاز اول دن سے آج تک باقی ہے۔ اخلاص و للہیت کی بستی میں علم و کمال کی آبادی میں اور فکر و نظر کی فصیلوں پر جب تک یہ چراغ جلتے رہیں گے ۔یہ قدسی ہستیاں یاد آتی رہیں گی ۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی تحریر میں بلا کی چاشنی اور لذت پائی جاتی ہے۔ قاری عبارت کی دنیا میں اس طرح محو ہوجاتا ہے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے۔کہیں کہیں بل کہ بہت سی جگہوں پر ان کی نثر میں شعریت کا گمان ہوتا ہے۔ خاندانی تربیت اور دیوبند کے ماحول نے ان کی تحریرمیں صالحیت کو باقی رکھا ہے۔الفاظ کے انتخاب میں بہت ہی دقت ِ نظر سے کام لیتے ہیں۔نوکِ قلم سے نکلی ہوئی تحریریں تاثیر کی دھار سے عقل ودماغ کو شکار کرلیتی ہیں اور پھر وہ آہستہ آہستہ اس طرح دل کو گرویدہ بنالیتی ہیں کہ ان کی گرفت سے نکلنے کو قاری کسی طرح آمادہ نہیں ہوتا۔ یوں تو انھوں نے مختلف اصناف میں اپنے قلم کی جولانی دکھلائی ہے؛لیکن فن سوانح اور خاکہ نگاری میں انھوں نے کمال کا رنگ دکھلایا۔ اندازبیان میں جو تسلسل اور روانی ہے وہ آبشاروں سے نکلے ہوئے پانی کی طرح ذہن و دماغ کو سیراب کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ہر دو شخصیات کی مغفرت کاملہ فرمائے ۔امین۔