یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے‘دو راستے ہیں‘ان میں سے کسی ایک کا انتخاب زندگی و موت کی کشمکش کی مانند ازبس ضروری بن چکا ہے۔ہر تباہی‘ہر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے‘ مادر وطن کو گزشتہ 75سال سے جس انداز میں نوچا گیا ہے:اب وقت فیصلے کا متقاضی ہے‘دو راستے فی الوقت ہمارے سامنے ہیں‘ایک یہ کہ لندن پلان پر عملدرآمد ہر حال میں یقینی بنایا جائے‘اس پلان کا تعلق صرف ن لیگ سے نہیں بلکہ پی ڈی ایم میں شامل تمام کی تمام جماعتیں اس کا حصہ ہے‘اسی لئے پی ڈی ایم اتحاد معرض وجود میں آیا اورتا وقت قائم ہے۔ لندن پلان کے تحت کرپشن کیسز کا خاتمہ کرنا‘تمام سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے کھیل کا حصہ دار بنانا اور نواز شریف کی نا اہلی اورتمام کیسز ختم کرواکر ان کو دوبارہ اقتدار میں لانا وغیرہ وغیرہ مقصود تھا‘ یہ بھی مطلوب تھا کہ عمران خان کو نااہل اور گرفتار کرلیا جائے‘یہ پلان 2021ء کے آخری ہفتوں میں طے پا تھا۔ اس کو منطقی شکل دینے میں آصف علی زرداری نے کلیدی کردار ادا کیا جبکہ مولانا فضل الرحمن نے پل کا کردار نبھایا‘شہباز شریف نے لندن کی برف پگلائی لیکن تاحال لندن پلان اپنے تمام مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے‘یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز محترمہ مریم نواز کی جانب سے جلسہ عام میں کھل کر یہ بھڑک بازی سامنے آئی۔ انہوں نے جوش خطابت میں یہاں تک کہہ دیا کہالیکشن کروائینگے لیکن پہلے فتنہ خان کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا‘الیکشن کروائینگے اس سے پہلے سسلین مافیا اور گاڈ فادر کے دھبے دھونے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سورج گرہن لگتا ہے اس طرح ہمارے ملک کو پانامہ گرہن لگ گیا‘ اس دوران معزز ججز کا نام لیکر ان پر سنگین نوعیت کے الزامات کی بارش بھی کی گئی۔ لندن پلان کو ہر لحاظ سے کیا محترمہ مریم نواز نے محض جوش خطابت میں آشکار کردیا؟ شاید یہ سارا سچ نہیں ہے‘دراصل اس پلان نے عمران خان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور ان پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی پیشی کے بعد مزید دو مقدمات قائم کرنے سے یہ بات عیاں ہوچکیکہ حکومت عمران خان کو سیاسی میدان سے ہر حال میں آؤٹ کرنا چاہتی ہے لیکن اس بیچ عدلیہ سے وہ آئین اور قانون کے مطابق جب یا جیسے ہی کوئی ریلیف حاصل کرتے ہیں تو عدلیہ کو براہ راست زیر اثر لانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ عمران خان کے ساتھ وہ کام پی ڈی ایم حکومت کرسکے‘جس قسم کی دھمکیاں روزانہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ دیتے ہیں‘ایک تو یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ ہم سب نے جذبات کی لہہ میں بہہ کر اس لندن پلان کا حصہ بننا ہے یا نہیں‘اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر دوسرا راستہ ملک کی خوشحالی اور بہتری کیلئے اٹھایا جانا ضروری ہے‘جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں:وطن عزیز میں مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے‘عام آدمی کیلئے زندگی گزارنا تقریبا نا ممکن ہوچکا‘ہر بنیادی اشیاء قوت خرید سے باہر ہوچکی ہے‘اس کے باوجود حکومت ڈراتی ہے کہ معیشت کے خلاف باتیں کرنے اور معیشت کے دیوالیہ ہونے کا کہنے والے ملک دشمن ہیں تو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آخر ہم ملک اور قوم کی ترقی چاہتے ہیں یا نہیں؟ ملک اور قوم کی ترقی کیلئے فوری طور پر ملک میں صرف پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات ضروری نہیں بلکہ پورے ملک میں انتخابات کی ضرورت ہے تاکہ جس کسی کی بھی حکومت قائم ہو‘وہ عوام کے ووٹ سے قائم ہو‘اس کا فائدہ ایسے ہوگا کہ حکومت قائم کرنے والی کسی بھی جماعت کو علم ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں وہ اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہے‘اگر اس نے انتخابات میں اپنے وعدوں‘دعوؤں اور منشور کے مطابق کارکردگی دکھائی اور یہ جماعت اس کے علاوہ کسی کے سہارے اقتدار میں نہیں آسکے گی‘ اب سوال یہاں پیدا ہوتاہے کہ آخر ایسا عام آدمی کیسے ممکن بنا سکتا ہے؟ یہی دوسرا راستہ ہے‘عوام اس وقت جس طرح عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے‘اگر ووٹ کی طاقت کو عوام سمجھ لیا جائے تواب جب بھی انتخابات ہوئے‘وہ اپنے اس فیصلے کو نافذ العمل نہیں بنوا پائیگی‘ اس کیلئے مسلسل جدو جہد کرنی ہوگی‘پرامن اور جمہوری انداز میں ووٹ ڈالنا بھی ہوگا اور اپنے ڈالے گئے ووٹ کا پہرہ بھی دینا ہوگا‘ مثال کے طور پر اگر کوئی با شعور شہری کسی جماعت کا حد سے زیادہ حامی ہے لیکن اس جماعت کی طرف سے ایک ایسے امیدوار کو ٹکٹ جاری کردیا جاتا ہے‘جس کی شہرت اچھی نہ ہو تو وہ اسے ووٹ نہ ڈالے بلکہ اس پارٹی کی قیادت کو اپنے ووٹ کا پہرہ دیتے ہوئے باور کروائے کہ یہ غلطی کیوں سرزرد کی گئی ہے اس کا خمیازہ بھگتے‘ اس طرح کے اور اس سے ملتے جلتے کئی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہے لیکن شرط عوام کے فیصلے پر منحصر ہونے کی ہے‘دنیا میں پارلیمانی نظام جمہوریت مہنگا ترین نظام ہے‘اس نظام کے بگاڑ کی ہمارے ہاں سب سے بڑی وجہ جمہوریت کے نام پر قائم سیاسی جماعتوں میں غیر جمہوری خاندانی بادشاہت ہے جو صرف اور صرف ہمارے جذباتی پن اور ضد کی حد تک سیاسی وابستگیوں کی بنا پر نہ صرف ممکن بنی ہوئی ہے بلکہ یہ خاندانی بادشاہت کے رسیا کسی نہ کسی قوت کے ساتھ کٹھ جوڑ کرکے الیکشن کو بھی سلیکشن میں تبدیل کردیتے ہیں‘یہ سلیکشن انتخابات سے مدت پہلے شروع ہوجاتی ہے‘جب الیکٹیبلز کے نام پر مختلف سیاسی پنچھیوں کو ایک جماعت سے دوسری جماعت میں اڑایا جاتا ہے‘ہم لوگ شعور رکھیں گے‘فیصلہ کرلیں تو پھر یہ فیصلہ ملک و قوم کی ترقی کے راستے کو مضبوط کرے گا اور اب نہیں تو کبھی نہ کبھی ہمارا عزم مصمم ملک میں ہمارے فیصلے کی صورت میں جمہوریت کے وہ ثمرات پہنچانے لگے گا‘جس کی اس وقت ملک اور ہمیں بے حد ضرورت ہے۔